نہ جانے اس بات میں کتنی حقیقت ہے مگر کہاجاتاہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں پاکستان نے امریکہ کی جنگ اپنے وطن میں لڑی ایک لاکھ پاکستانیوں نے قربانیاں دیں ہزاروں زخمی اور معذور ہوگئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے گلے پڑ گئی امریکہ سے محبت کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں لیکن امریکہ بہادر کو اس کااعتراف کرنے میں بھی تامل ہے امریکہ نے جاپان پرایٹم بم چلاکر جس جرم کاارتکاب کیا اس کا اسے رتی بھراحساس نہیں اس کے باوجود وہ امن کا داعی اور چمپئن بناہواہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے امریکہ کے بل بوتے پر فلسطینی مسلمانوں کی جتنی نسل کشی کی ہے تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی حال ہی میں ما سکو کے چینی سفارت خانے نے ان ممالک کی فہرست شائع کی ہے، جن پر جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا نے بمباری کی جس سے امریکیوں کی ذہنیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے جاپان میں دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران: 6 اور 9 اگست 1945 کوایٹم بم برسا کر لاکھوں افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا کوریا اور چین: 1950–1953 (جنگِ کوریا)،گواتی مالا: 1954، 1960، پھر 1967–1969،انڈونیشیا: 1958،کیوبا: 1959–1961، کانگو: 1964،لاؤس: 1964–1973،ویتنام: 1961–1973،کمبوڈیا: 1969–1970،گریناڈا: 1983،لبنان: 1983، 1984 (لبنان اور شام میں اہداف پر حملے)،لیبیا: 1986، 2011، 2015،ایل سلواڈور: 1980،نکاراگوا: 1980،ایران: 1987،پاناما: 1989،عراق: 1991 (خلیجی جنگ)، 1991–2003 (امریکی و برطانوی حملے)، 2003–2015،کویت: 1991،صومالیہ: 1993، 2007–2008، 2011،بوسنیا: 1994، 1995،سوڈان: 1998،افغانستان: 1998، 2001–2015،یوگوسلاویہ: 1999،یمن: 2002، 2009، 2011،پاکستان: 2007–2015،شام: 2014–2015 شامل ہیں یہ فہرست 20 سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔
چین نے زور دیا ہے کہ “ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے لئے اصل خطرہ کون ہے۔” افغانستان، شام، عراق کو کھنڈر بنانے کا ذمہ دار کون ہے سب جانتے ہیں پھر سوال اْٹھتا ہے: کیا کبھی مغربی معاشرے نے امریکہ پر برہمی ظاہر کی؟ کیا کبھی اس کے خلاف زوردار آوازیں بلند ہوئیں؟ کیا کسی ایک بار بھی امریکہ پر پابندیاں عائد ہوئیں؟ کیونکہ آج تک سب سے زیادہ انسانی حقوق امریکہ نے پامال کئے ہیں جس پر انسانیت آج بھی نوحہ کناں ہے یہ پورا سسٹم جسے ہم “عالمی برادری” کہتے ہیں، خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جبکہ امریکا دنیا بھر کے ممالک پر حملہ آور ہو کر ان کے خوابوں کو بھی خوفناکی میں بدل دیتا ہے۔ آج تک کسی نے امریکہ کی نہ کوئی مذمت، نہ کوئی سرزنش، نہ کسی قسم کی ناراضگی کااظہارکیا نہ امریکہ کو اس پر کوئی ندامت ہے نہ پیشمانی بلکہ دنیاکے بیشترممالک امریکہ کی محبت میں مرے جارہے ہیں خلیجی ممالک اور بھارت اس میں پیش پیش ہیں اس لحاظ سے دنیابھرمیں اکثرممالک بزدل، بے شرم، اور منافق ہیں جن ضمیر مرچکاہے اور عالمی برادری نے امریکہ کے سامنے گھنٹے ٹیک دئیے ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ کے جنگی جرائم کا دفاع کرنے کی بجائے لوگوں کو آگاہ کیا جائے ایسی فلمیں بنائی جائیں جو ان تمام مغربی منافقوں کو بے نقاب کریں اور امریکا کے ہاتھوں دنیا بھر میں ہونے والے جرائم کی ہر حقیقت یاد دلاتی رہیں۔
چینی سفارتخانے کی جانب سے یہ فہرست سفارتِ چین برائے روس (ماسکو) نے ایک سیاسی اور اخلاقی پیغام کے طور پر اْس وقت جاری کی، جب عالمی میڈیا اور مغربی ممالک ایران کی جانب سے اسرائیل پر کئے گئے حملے کی شدید مذمت کر رہے تھے، لیکن خود امریکا کے ماضی کو مکمل نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ چین نے یہ معلومات اس دوہرے معیار (double standards) کو بے نقاب کرنے کے لئے شائع کی گئی، جو امریکا اور مغرب انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور عالمی سلامتی کے معاملات میں اپناتے ہیں۔ جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران کو “عالمی خطرہ” قرار دینا شروع کر دیا۔ چینی سفارتخانے نے اس تنقیدی مہم کے جواب میں یہ فہرست جاری کی تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ حقیقی خطرہ وہ ملک ہے جس نے جنگِ عظیم دوم کے بعد 30 سے زائد ممالک پر بمباری کی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ امریکہ کسی بھی اخلاقی مقام سے بات کرنے کے اہل نہیں، کیونکہ خود اس کا ماضی اور حال انسانی حقوق کی پامالیوں اور عالمی جارحیت سے بھرا پڑا ہے۔ چین نے اس فہرست کو جاری کر کے ایک وسیع تر پیغام دیا “دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ کون اصل خطرہ ہے۔ مغربی میڈیا اور حکومتیں منافقت سے کام لیتے ہیں، اور جب امریکا قتل عام کرتا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں۔” چین کا یہ اقدام صرف سفارتی یا معلوماتی نہیں، بلکہ سیاسی جواب اور اخلاقی چارج شیٹ بھی ہے آج صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیرکوحل کرنے کی بات کرتے ہوئے امن کے داعی بننے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف قلسطین میں تاریخ کی بدترین نسل کشی جاری ہے ایران اسرائیل جنگ کے دوران امریکہ کے ایران پر حملے اس کی منافقت کو اجاگرکرنے کے لئے کافی ہیں کیونکہ ثابت ہوچکاہے امریکہ کا طرز ِ عمل اس کے اپنے بیانئے کے برعکس ہے محض بیان بازی سے اندازہ نہیں لگایاجاسکتا قول و فعل کے تضادات دور کئے بغیر انسانیت کی خدمت نہیں کی جاسکتی۔
Post Views: 8