سیمور ہرش کا دعویٰ: امریکہ یوکرین میں زبردستی حکومت کی تبدیلی پر غور کر رہا ہے
ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی سیمور ہرش نے 18 جولائی 2025 کو اپنے سب اسٹیک بلاگ پر دعویٰ کیا کہ امریکہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کو زبردستی ہٹانے اور اقتدار سابق فوجی سربراہ ویلیری زالوژنی کو منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ انہوں نے واشنگٹن میں اپنے ذرائع کے حوالے سے کیا، جس نے پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی خاصی توجہ حاصل کی۔ ذیل میں اس دعوے کی تفصیلات، پس منظر، اور اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
دعوے کی تفصیلات
- زبردستی ہٹانے کا منصوبہ: ایکس پر @geonews_urdu، @TurkiyeUrdu_، @AsadChWrites، اور @alitanoli889 کی 19 جولائی 2025 کی پوسٹس کے مطابق، ہرش نے کہا کہ اگر زیلنسکی نے رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا تو انہیں زبردستی ہٹایا جا سکتا ہے۔ زالوژنی، جو فی الحال برطانیہ میں یوکرین کے سفیر ہیں اور سابق کمانڈر ان چیف رہ چکے ہیں، کو زیلنسکی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
- وقت کا تعین: ہرش کے مطابق، یہ تبدیلی “اگلے چند مہینوں” میں ہو سکتی ہے، اور اس کا انحصار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ہے۔ اگر زیلنسکی خود استعفیٰ نہیں دیتے، تو امریکہ انہیں جبری طور پر ہٹانے پر غور کر رہا ہے۔
- امریکی عدم اطمینان: ہرش نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکہ اور یوکرین میں روس کے ساتھ جاری فضائی جنگ سے عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسے فوری طور پر روکنا ضروری ہے، جبکہ ابھی بھی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے مذاکرات کا موقع ہے۔
پس منظر
- ہرش کا صحافتی ریکارڈ: سیمور ہرش ایک پلٹزر ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں، جنہوں نے ماضی میں مائی لائی قتل عام (1969)، واٹر گیٹ اسکینڈل، ابو غریب جیل کے تشدد، اور نورد اسٹریم پائپ لائن دھماکوں (2022) جیسے اہم واقعات کو بے نقاب کیا۔ تاہم، ان کی حالیہ رپورٹس، خاص طور پر یوکرین اور نورد اسٹریم سے متعلق، کو امریکی مین اسٹریم میڈیا نے “غیر مصدقہ” قرار دیا ہے، کیونکہ وہ اکثر ایک یا چند گمنام ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
- زیلنسکی اور زالوژنی کے تعلقات: ہرش نے 2023 میں رپورٹ کیا تھا کہ زالوژنی اور روس کے جنرل ویلیری گیراسیموف کے درمیان خفیہ امن مذاکرات ہو رہے تھے، جو زیلنسکی کی پالیسیوں سے اختلاف کی عکاسی کرتا ہے۔ زیلنسکی نے 2022 میں روس کے ساتھ مذاکرات پر پابندی لگائی تھی، جبکہ زالوژنی نے جنگ کو روکنے کے لیے مذاکرات کی وکالت کی تھی۔
- امریکی پالیسی: ہرش نے مارچ 2024 میں دعویٰ کیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے زیلنسکی کو 45 ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد روکنے کی دھمکی دے کر روس کے ساتھ امن مذاکرات سے روکا تھا۔ یہ دعویٰ ان کے تازہ بیان سے ہم آہنگ ہے کہ امریکہ یوکرین کی جنگ میں اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہا ہے۔
- موجودہ تناظر: ایکس پر @rehman46043768 اور @alitanoli889 نے بتایا کہ یہ فیصلہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے جڑا ہو سکتا ہے، جو یوکرین کی فوجی امداد کو معطل کر چکے ہیں۔ ہرش نے دعویٰ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی یوکرین کی فوج کو “دماغی طور پر شکست خوردہ” سمجھتی ہے، اور زیلنسکی کی حکمت عملی کو ناکام مانتی ہے۔
تنقید اور شکوک
- مصدقہ ذرائع کی کمی: ہرش کے دعووں کو امریکی مین اسٹریم میڈیا نے اکثر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ وہ گمنام ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے ان کے نورد اسٹریم دھماکوں کے دعوے کو “مکمل طور پر جھوٹ” قرار دیا تھا۔
- ممکنہ پروپیگنڈا: ایکس پر کچھ صارفین نے ہرش کے دعووں کو روس کے پروپیگنڈے سے جوڑا، کیونکہ ان کی رپورٹس اکثر روسی میڈیا میں نمایاں ہوتی ہیں۔ اسٹیفن برائن جیسے تجزیہ کاروں نے کہا کہ ہرش کو “دھوکہ” دیا جا سکتا ہے تاکہ زالوژنی کو غدار کے طور پر پیش کیا جائے۔
- پاکستانی میڈیا کا ردعمل: پاکستانی میڈیا، جیسے کہ جیو نیوز اور ترکیہ اردو، نے اس خبر کو نمایاں کیا، لیکن اسے غیر مصدقہ دعووں کے طور پر پیش کیا۔ ایکس پر @gnnhdofficial نے اسے “بڑا دعویٰ” قرار دیا، لیکن تصدیق کے بغیر۔
اثرات
- یوکرین کی سیاست: اگر یہ دعویٰ درست ہے، تو زیلنسکی کی جبری برطرفی یوکرین کی سیاسی استحکام کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر جب فوج پہلے ہی دباؤ میں ہے۔ زالوژنی کی ممکنہ قیادت روس کے ساتھ مذاکرات کی طرف ایک تبدیلی لا سکتی ہے۔
- امریکی پالیسی: یہ دعویٰ ٹرمپ انتظامیہ کی یوکرین کے حوالے سے تبدیل شدہ پالیسی کی عکاسی کر سکتا ہے، جو فوجی امداد کم کرنے اور جنگ کے خاتمے پر زور دے رہی ہے۔
- عالمی ردعمل: ایکس پر صارفین نے اسے “ٹرمپ سے الجھنے کے سائیڈ ایفیکٹس” سے جوڑا، جبکہ پاکستانی میڈیا نے اسے امریکی اثر و رسوخ کی عکاسی کے طور پر دیکھا۔