جوہری مذکرات دوبارہ شروع کرنے کا امکان موجود ہے، ایرانی وزیرخارجہ

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ ایران جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے مخصوص شرائط اور ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ یہ بیانات 2025 کے وسط میں اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد سامنے آئے ہیں، جنہوں نے مذاکراتی عمل کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ ایکس پوسٹس اور میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر، ذیل میں اس موضوع کی تفصیلات، پس منظر، اور اثرات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

تفصیلات

  • عباس عراقچی کا موقف:
  • ایکس پر @RTEUrdu کی 14 جون 2025 کی پوسٹ کے مطابق، عراقچی نے دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ کو بتایا کہ ایران اسرائیل کو جوابی کارروائی کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
  • @BBCUrdu کی 2 جولائی 2025 کی پوسٹ میں عراقچی نے کہا کہ ایران یورینیم افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا، لیکن جوہری ہتھیار بنانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
  • @RTEUrdu کی 25 مئی 2025 کی پوسٹ کے مطابق، عراقچی نے واضح کیا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام میں یورینیم افزودگی کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا، اور اگر امریکہ صفر افزودگی پر اصرار کرتا ہے تو معاہدہ ممکن نہیں ہوگا۔
  • امریکی تجویز:
  • نیویارک ٹائمز کی 3 جون 2025 کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے ایک تجویز پیش کی جس میں ایران کو کم سطح پر یورینیم افزودگی کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ ایک جامع معاہدے پر کام کیا جائے گا جو ایران کے جوہری ہتھیاروں کے راستے کو روکے گا۔
  • تاہم، @RTEUrdu کی 17 جولائی 2025 کی پوسٹ میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد جوہری معاہدے (JCPOA) کے طریقہ کار پر عمل کا کوئی جواز نہیں رہا۔
  • حالیہ پیش رفت:
  • PBS نیوز کی 12 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، عراقچی نے تہران میں غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران ہمیشہ جوہری مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے، لیکن مذاکرات کے دوران فوجی حملوں سے تحفظ کی ضمانت درکار ہے۔
  • الجزیرہ کی 6 جولائی 2025 کی رپورٹ میں عراقچی نے کہا کہ ایران کو فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے، کیونکہ اسرائیل اور امریکہ کے حملوں نے جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے، اور ان کی حفاظت یقینی بنانا ضروری ہے۔
  • تکنیکی رکاوٹیں:
  • ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کر دیا۔ @RTEUrdu کی 27 جون 2025 کی پوسٹ کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ جب تک جوہری تنصیبات کی سیکیورٹی کی ضمانت نہ ملے، IAEA کے ساتھ تعاون معطل رہے گا۔
  • الجزیرہ کی 23 ستمبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق، عراقچی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر کہا تھا کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے اگر دوسرے فریق بھی تیار ہوں، لیکن علاقائی کشیدگی اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے۔

پس منظر

  • جوہری معاہدہ (JCPOA):
  • 2015 میں ایران اور P5+1 (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین، اور جرمنی) کے درمیان جوہری معاہدہ (JCPOA) طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کیا اور بدلے میں اقتصادی پابندیوں میں نرمی حاصل کی۔
  • 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری کر لی، جس کے بعد ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودگی شروع کر دی، جو ہتھیاروں کے درجے (90 فیصد) سے کچھ ہی کم ہے۔
  • 2025 کے مذاکرات:
  • اپریل 2025 سے ایران اور امریکہ نے عمان کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات شروع کیے، جن کی قیادت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کی۔
  • ان مذاکرات میں ایران نے ایک تین نکاتی منصوبہ پیش کیا: یورینیم افزودگی کو 3.67 فیصد تک محدود کرنا، منجمد مالیاتی اثاثوں تک رسائی، اور تیل کی برآمد کی اجازت۔
  • تاہم، جون 2025 میں اسرائیل کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات (نطنز، فوردو، اور اصفہان) پر حملوں اور امریکی بمباری نے مذاکرات کو معطل کر دیا۔
  • علاقائی کشیدگی:
  • اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور مذاکرات کی مخالفت کرتا ہے۔
  • ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کی جوہری تنصیبات پر مزید حملے ہوئے تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT) سے دستبردار ہو سکتا ہے۔

اثرات

  • مذاکرات کا امکان:
  • عراقچی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن وہ یورینیم افزودگی کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔
  • نیویارک ٹائمز کی 15 مئی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے ایک مشترکہ جوہری افزودگی کے منصوبے کی تجویز دی، جس میں عرب ممالک اور امریکی سرمایہ کاری شامل ہو، لیکن امریکی حکام نے اسے مذاکرات کا حصہ نہیں مانا۔
  • علاقائی استحکام:
  • مذاکرات کی کامیابی سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے، لیکن اسرائیل کے حملوں اور امریکی پابندیوں نے عمل کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
  • واشنگٹن پوسٹ کی 13 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور عراقچی نے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔
  • اقتصادی دباؤ:
  • ایران کی معیشت امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہے۔ مذاکرات کی کامیابی سے پابندیوں میں نرمی ممکن ہے، جو ایرانی معیشت کے لیے ریلیف لا سکتی ہے۔

چیلنجز

  • امریکی پوزیشن: صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کو یورینیم افزودگی مکمل طور پر بند کرنا ہوگا، جو ایران کے لیے ناقابل قبول ہے۔
  • اسرائیل کی مخالفت: اسرائیل نے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی دھمکی دی ہے، جو مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔
  • IAEA کے ساتھ تعاون: ایران نے جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد IAEA کے ساتھ تعاون معطل کیا، جو مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

Facebook Comments Box