جگرخوں ہوتوچشمِ دل میں ہوتی ہے نظرپیدا

پاکستان بننے کے بعدسے اکثرلوگ توسیاست تفننِ طبع کے طورپرکررہے ہیں،یا پھرکاروبارکی طرح سے کررہے ہیں کہ یہ جواہی سہی لیکن جب لگ جاتا ہے توپنجابی میں کہتے ہیں کہ ”سارے پاڑے میل دیتا ہے“۔اوراکثرامراء جوانگریزوں نے اپنی وفاداری کے عوض جاگیرداراورسرکاری ملازم بنارکھے تھے،ان کی نسلیں جواس زمانے سے نسل در نسل بے محنت کھانے اورموجیں مارنے والے تھے، جنہیں انگریزنے اپنے دربارمیں ملازمت یا اکرام دے رکھاتھا اورجن کے لیے وظائف مقرر تھے،اوروہ اُس وقت کے غلام یامحکوم عوام اورانگریزوں کے درمیان ایک وسیلہ بنے ہوے تھے، انگریز کے ملازم اس وقت سے اس تربیت میں ہیں کہ جب کوئی عام آدمی کسی انتظامی یا سرکاری دفتر میں کوئی اپنی فریادیا کام لے کرجاتا توآگے سرکارکاملازم اس سے پوچھتا کہ تم کس کو ساتھ لے کر آئے ہو،یا تمہیں کس نے بھیجا ہے؟جوآج بھی ہماری سرکاری ملازموں کو تربیت میں شاید سکھایا جاتا ہے یا پھرقدرتی طورپرجین میں سے ملازم ہوتے ہی خودبخودپھوٹ پڑتاہے،یقین نہ آئے توکسی تھانے میں کوئی عام بندہ جاکردیکھ لے۔ انگریز توچلے گئے لیکن وہ اپنے وفاداروں میں اپنی تمام استعماریت چھوڑگئے،اوراستعمارکا عادی چاہے سیاست کرے یاسرکاری ملازمت،اس میں تکبراورجبرپایا جاتا ہے،علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے جسے تکبراورحکومت شایاں ہے،اس سے بھی عرض کیا ہے ”تیری دنیا میں محکوم ومجبور۔میری دنیا میں تری پادشاہی“۔پاکستان میں آج کل کیا پاکستان جب سے بنا ہے اس میں یہ محکوم ومجبوراورپادشاہی کاکھیل چل رہا ہے،انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے خواہش مندآج اپنوں کی غلامی میں جکڑچکے ہیں،اورانگریزچاہے غاصب ہی تھے،لیکن انہیں شاہی کا گر آتا تھا،وہ محکوموں کوانہیں کے اندرسے حاکم بناکرراضی بھی رکھتے تھے،اگرکوئی محکوم اصل حکمرانوں تک پہنچ جاتاتووہ اس کی دادرسی بھی کرتے تھے، اسی لیے آج پاکستان میں جاگیرداراوروڈیرے اورسرکاری لوگوں کے علاوہ عام عوام بھی انگریزوں کے دورکو”بھلا دور“ کہہ کریادکرتے ہیں۔ چونکہ حکمرانی شعوراورقوتِ فیصلہ کی مضبوطی سے ہوتی ہے،ہمارے یہاں حکمرانی رواج سابنا ہوا ہے،کہ جس کے پاس مال ودولت ہے،جوڈنڈے سوٹے سے لوگوں کو آگے ہانک لیتا ہے،جوبرادری یا کاروبار کے زورپردس بیس ہزار لوگوں کی معاونت حاصل کرسکتاہے،وہ سیاست کا جواکھیلتا ہے،بہت سے ان میں ایسے ہیں جنہیں کبھی کسی عوامی مشکل سے واسطہ ہی نہیں پڑااورکچھ ایسے ہیں جوحکومت کا چسکا لیتے لیتے جیل کی ہوابھی کھاآئے،لیکن پھربھی کچھ نہ سمجھے کہ اس نظام میں خامی کیا ہے اورکہاں سے اسے درست کیا جاسکتا ہے،جاگیرداری،سرمایہ داری،اورداداگیری سے حکومت میں آجانے والے،انہیں روشوں کو حکومت میں بھی اپنائے رہتے ہیں،یہ سارے لوگ اپنے ماتحتوں کے ذریعے ہی اپنے کاروبارچلانے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن جاگیرداری، سرمایہ داری،اورداداگیری میں ماتحت مجبورلوگ ہوتے ہیں، مگر حکومت میں ماتحت مستقل ملازم ہوتے ہیں،اوربااختیار بھی ہوتے ہیں،انہیں نہ نکالا جاسکتا ہے،نہ ان کے اختیارات چھینے جاسکتے ہیں،جس کی بنا پرحکمران چاہے ”سلطان راہی“ہی ہواسے ڈمی بننا پڑتا ہے ۔ لہذااس کے لیے کسی میں شعورِ حکمرانی اوروہ بھی اسلامی شعور ہوتوجاکرجذبہ شہادت سے اس کوچہ میں قدم رکھے،اورنظریہ بھی وہی ہوکہ ”نہ مالِ غنیمت نہ کشورکشائی“تب شایدجاکرپاکستان میں نظام تبدیل ہو،ورنہ یہ نسلی تربیت ِ حکومت اوروہ بھی یورپ وامریکہ سے حاصل شدہ اس ملک کے نظام کو تبدیل نہیں کرسکتی البتہ اسے اورپختہ کرسکتی ہے، جوکہ واضح ہے کہ سن اڑتالیس سے لے کر آج تک یہ نظام دن بدن طاقت ورہورہا ہے،دوقومی نظریئے پربننے والا ملک اب کئی قومی نظریوں کی مدھانی سے بلواجارہا ہے،ہرسیاسی بندہ حکمران بننے سے پہلے عوام کے ساتھ سرکاری ملازموں میں اپنا مقام بنانے کی سعی کرتا ہے،اورایک ہندی مقولہ ہے،کہ”جوپیا من بھائے وہ سہاگن“۔توپھرجاگیردار،صنعت کارکیابھتہ خوراورچندہ خوربھی اقتدارکی پینگ کا جھونٹالے لیتے ہیں۔اورقوم کوکہا جاتا ہے کہ اسے بھی آزمانے میں کیا حرج ہے ایک باراسے بھی آزمالیتے ہیں۔عوام بے شک کہتی رہے”میں تیرے عشق میں مرنہ جاوں کہیں،تومجھے آزمانے کی کوشش نہ کر“۔یہ ہیں وہ انگریزوں کے سائے جواس قوم کے کسی بھی فرد سے آج تک نہیں نکلے،حکمران انہیں کے وائے سرائے، ملازم انہیں کے نظام استعمار کے کارندے،قوم انہیں کی غلامی میں رضامندتوپھریہ جن لوگوں کا خون بہایا گیا، جن کی عزتیں لوٹی گئیں،جن کے گھربارلٹ گئے، جوکہیں کے نہ رہے، کیایہ صرف ایک استعمارکی تفنن ِ طبع کے لیے تھا،پاکستان کے ہرطبقہِ اقتدارواختیاروعلم وشعورسے یہ سوال کہیں نہ ہواتوبروزِ قیامت ضرورہوگا،اس وقت کسی کے حج، کسی کی نمازیں، کسی کی زکوٰتیں،کسی کے ہسپتال اورشاید کسی کی جان کی قربانیاں بھی اس کے بدلے قبول نہ کی جائیں۔ لہذاتمام طبقہ ہائے اقتدارواختیارکوجواپنے آپ کومسلمان سمجھتے ہیں،انہیں اپنی کرسیاں اپنے عہدے، اپنے اختیار،پسِ پشت ڈال کراسلام کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا،جہاں بانی کی پینگ سے اتر کرجہاں بینی کی کلفتوں سے کلیجے کوخون کرنا پڑے گا،تب جاکررازِ حکومت کھلے گا،کہ حضرت عمرجیساجری وبہادرجب اپنے کندھے پر بارخلافت اٹھاٹاہے تودن کولرزتا رہتا ہے اورراتوں کودھاڑیں مارکرروتا ہے، کہ فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی مرگیاتومجھے پوچھا جائے گا،میرے حکمرانو!تم سوچوکہ آج کتنے بے گناہ ظالموں،جابروں کے ہاتھوں تمہاری حکومت کے سائے میں مررہے ہیں،اورتمہاری کبھی نیندبھی نہیں کھلی،محکمے بڑھانے، اوران کے اختیاربڑھانے سے ملک نہیں سدھرتے،بلکہ ان محکموں اوران کے اختیارپرنظررکھو، ان کی خفیہ نگرانی ہو، ان کوبھی کسی اختیاری اورمفاداتی غیرقانونی کام کرنے پرفوری سزادو،تب جاکرعوام کے حقوق کی پاسداری اورملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوگی،اوراس کے لیے کسی سعادت مندکوشایدشہادت بھی قبول کرنی پڑے،اللہ تعالیٰ علامہ اقبال کے اس شعرکوسمجھنے کی توفیق دے،آمین،”جہاں بانی سے دشوارترکارِجہاں بینی۔جگرخوں ہوتوچشمِ دل میں ہوتی ہے نظرپیدا“وماعلی الا البلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم

Facebook Comments Box