عاشقی کا زمانہ گزر چکا ہے

عاشقی کا زمانہ گزر چکا ہے
اک نشہ تھا جو اتر چکا ہے
بگڑا ہوا تھا ایک مدت سے
اب میرا دل سدھر چکا ہے

اسے پانا ایک خواب تھا جو
وہ رفتہ رفتہ بکھر چکا ہے
اب یہاں پھول نہیں کھلتے
گلستاں دل کا اجڑ چکا ہے

دھڑکن میں نہیں تپش باقی
یہ دل ہر درد سے گزر چکا ہے

جاوید لبوں پہ دعا بھی کم ہے
شوقِ دیدار بھی مر چکا ہے

— محمد جاوید

Facebook Comments Box