اسلام آباد کو مملکتِ خداداد پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا اعلان 1959 ء میں ہوا ۔ اس سے قبل اس سرزمین پر کم وبیش160 دیہات آباد تھے ۔ اسلام آباد کا قدیم نام راج شاہی تھا ۔
ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق یہاں پر لاکھوں سال پرانے انسانی قدموں کے نشانات ملے ہیں۔ یہاں انسانی ذندگی کے
آثار بہت پرانے ہیں۔
اس تحقیق کی بنیاد وہ فوسلز تھے جو دریائے سواں کے ارد گرد کے علاقے مورگاہ گڑھی شاہاں سواں کیمپ سے ملے ہیں۔
ماہر ارضیات ڈی ۔این واڈیا نے 1928 میں دریائے سواں کے کنارے ایسے اوزاروں کا پتہ چلایا ہے جو پتھر کے بنے ہوئے اوزار
استعمال کرنے سے بھی قبل کا زمانہ ہے ۔
مورخ اگر اس دھرتی کے ماضی پر نظر دوڑائے تو اسے ہر سیکٹر یا سب سیکٹر میں ایک گاوں آباد نظر آئے گا ۔ بلکہ اس کے اولین آباد کار بمعہ اپنے شجرہ نسب کے آباد دکھائ دیں گے ۔ دیہاتوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ بھی اپنی الگ شناخت ظاہر کرتی ھے۔
شہر کی تعمیر کے دوران مارگلہ کے دامن میں واقع بہت سے دیہات جیسے نورپور شاہاں، شاھدرہ سیدپور اور گولڑہ شریف کو اسلام آباد کا دیہی علاقہ قرار دیکر ان کی اصل شکل کو برقرار رکھا گیاہے ۔ اس دیہی علاقے کا مجموعی رقبہ ٣٨٩٠٦
مربع کلومیٹر ہے
سیدپور اور شاہ اللہ دتہ قدیم ترین دیہات ہیں سید پور کا پرانا نام فتح پور باولی تھا اسے پہلے پہل مغلوں کے ایک بزرگ مرزا فتح بیگ نے 1530 میں آباد کیا تھا ۔ 1580 میں مان سنگھ نے کابل جاتے ہوئے سید خان گکھڑ کو یہ جاگیر عطا کی ۔ بعد میں سید خان کی مناسبت سے اس کا نام سیدپور رکھا گیا ۔ سید خان سلطان سارنگ خان کی اولاد میں تھے۔ سیدپور کو قدیم دور سے ہی اہمیت حاصل رہی ہے ۔ ،1849 میں یہاں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر قبضہ کیا تھا ۔ یہاں ہندوں کے مشہور استھان رام کنڈ ، لچھمن کنڈ اور مندر تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ مشرف دور میں سیدپور کو ماڈل ویلیج کا درجہ دیکر اپ گریڈ کیا گیا ۔ اس گاوں میں گکھڑ برادری کی اکثریت ہے جبکہ جنجوعہ راجپوت، اعوان، پیرکانجن مغل، دھنیال، گوجر، منہاس، راجپوت، بھٹی اور سید بھی آباد ہیں ۔
سیدپور سے منسلک قدیمی آبادیوں میں چک ، بیچو، میرہ ، ٹیمبا ،بڑ ، جنڈالہ ہیلاں شامل تھے ،ٹیمبا میں پاکستان کی سب سے بڑی مسجد فیصل مسجد قائم ہے بڑ موجودہ ایف 5 کا علاقہ ہے ۔
سیکٹر ای سیون میں ڈھوک جیون نام کی بستی تھی .
محقق وتاریخ دان:ڈاکٹر عبدالشکورلدھوی