میں ضلع کوٹلی کے ایک پسماندہ گاؤں نڑالی میں پیدا ہوا، جہاں اس دور میں روزمرہ کی بنیادی سہولیات کا فقدان تھا۔ میری ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز مڈل سکول نڑالی موہاڑ سے شروع ہوئی، جسے 2008ء میں ہائی سکول کا درجہ ملا۔ سکول کی ہر جماعت میں نمایاں کارکردگی دکھاتے ہوئے میں نے اول پوزیشن حاصل کی۔ 1986ء میں، جب میں چھٹی جماعت میں تھا، اپنی شاندار کارکردگی پر اس وقت کے وزیر تعلیم راجہ محمد اکرم خان کے ہاتھوں گوئی میں منعقدہ تقریب میں انعام حاصل کیا۔ یہ اعزاز نہ صرف میرے لیے بلکہ میرے گاؤں کے لیے بھی فخر کا باعث تھا۔آٹھویں جماعت کے بعد مجھے کوٹلی شہر کے معروف تعلیمی ادارے، گورنمنٹ بوائز پائلٹ ہائی سکول کوٹلی میں داخلہ ملا۔ میٹرک کے دوران صحافت کا شوق پیدا ہوا اور میں نے روزنامہ نوائے وقت کے بچوں کے ہفتہ وار ایڈیشن میں لکھنا شروع کیا۔ بعدازاں، روزنامہ نوائے وقت اور جنگ راولپنڈی میں باقاعدگی سے مضامین لکھے۔ میں نے اپنی تحریروں میں اپنے علاقے کی پسماندگی، بنیادی مسائل اور عوامی محرومیوں کو اجاگر کیا، جس سے نہ صرف حکومتی توجہ حاصل ہوئی بلکہ کئی مسائل کے حل میں عملی پیش رفت بھی ممکن ہوئی۔ریڈیو پاکستان کے پلیٹ فارم سے بھی علاقائی مسائل کو نشریاتی سطح پر پیش کیا، جس کے نتیجے میں کئی ترقیاتی منصوبے عمل میں آئے۔ ان میں 1992ء میں ننڈا گلی سے نڑالی دربار تک 2 کلومیٹر سڑک کی منظوری، 1994ء میں ڈاکخانے کا قیام، 2005ء میں بجلی کی فراہمی، اور محتسب عدالت کے فیصلے سے ڈسپنسری کے قیام کے ساتھ دو مستقل اور ایک عارضی آسامیوں کی منظوری شامل ہیں۔ یہ تمام ترقیاتی اقدامات ملک محمد نواز خان کے دورِ حکومت میں ممکن ہوئے۔
میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز 1990ء میں ہفت روزہ “شمشیر مظفرآباد” سے کیا۔ 1990ء اور 1991ء کے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کے لیے کوٹلی کی سیاسی ڈائری لکھی۔ اسی دوران مشہور جریدے “افتخارِ ایشیا” کے بیورو چیف کوٹلی اور نیشنل نیوز ایجنسی (این این اے) کے رپورٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے “این این آئی “کے ساتھ کوٹلی سے ڈسٹرکٹ رپورٹر کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ میری خبریں قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کی زینت بنتی رہیں 1990ء میں قومی ادارہ صحافت اسلام آباد سے” ڈپلومہ ان جرنلزم “اور بعد میں صحافت میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1989ء سے 2003ء تک پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف اخبارات و جرائد، جیسے کہ اے پی پی، این این اے، این این آئی، روزنامہ اساس، روزنامہ رہبر، روزنامہ انصاف، اور روزنامہ لبیک اسلام آباد، کشمیر نیوز، جریدہ ‘القانون” اور دیگر کے ساتھ بطور صحافی کام کیا۔ اخبار ” معراج ملت ” “روابط انٹرنیشنل “اور ” ندائے ملک” کا ایڈیٹر بھی رہا ۔یہ وہ دور تھا جب صحافت کی قدر کی جاتی تھی، اور ایک شکایتی مراسلہ بھی متعلقہ اداروں کی توجہ حاصل کر لیتا تھا۔ 1989ء سے 2003ء تک پاکستان اور آزاد کشمیر کے قومی و علاقائی اخبارات و جرائد میں حالات حاضرہ ، سیاست ، سماجیات اور تاریخ جیسے اہم موضوعات پر میرے درجنوں مضامین ،کالمز اور تحقیقی رپورٹس شائع ہوئیں ۔ میرے تحریری کام کو میڈیا کے مختلف اداروں اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھرپور پزیرائی ملی ، جس کے اعتراف میں مجھے تعریفی اسناد اور شیلڈز سے بھی نوازا گیا صحافت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور فلاحی تنظیموں، جیسے کہ سارک کی ساؤتھ ایشین ہیومن رائٹس موومنٹ اور جموں و کشمیر ہیومن رائٹس فورم کے ساتھ وابستہ رہا۔ 1992ء سے 2000ء تک اپنے گاؤں کی زکوٰۃ و عشر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ میری کامیابیوں میں میرے والدین کی دعاؤں کے بعد اہلیہ محترمہ جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، کا کلیدی کردار ہے ۔ان کی حوصلہ افزائی سے میں نے عمومی تعلیم کے ساتھ محکمہ تعلیم کے پروفیشنل کورسز (پی ٹی سی، سی ٹی، بی ایڈ، ایم ایڈ) مکمل کیے، جو بعد میں میرے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہونے کا باعث بنے۔
میں نے 2004ء میں محکمہ تعلیم جوائن کیا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیشنل کورسز کے ٹیوٹر کی حیثیت سے سینکڑوں طلباء وطالبات کی رہنمائی کی، جو آج ضلع کوٹلی کے سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اب میں شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ جز وقتی فری لانس صحافی ہوں اور بلا معاوضہ کالم نگاری کرتا ہوں۔ میرا کالم “کوہ تلی سے کوٹلی تک” مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتا ہے، جس میں غیر سیاسی اور تاریخی موضوعات پر لکھا جاتا ہے۔ الحمدللہ، میرے دو بیٹوں اور ایک بیٹی نے بھی صحافت کے شعبے میں قدم رکھا ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
میں گزشتہ دس سال سے عارضہ قلب کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔ 2014ء میں دو شدید قلبی دوروں کے بعد میرا بائی پاس آپریشن ہوا اور کئی دن AFIC راولپنڈی میں وینٹیلیٹر پر رہا۔ زندگی کے آثار تقریباً ختم ہو چکے تھے، لیکن بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ موت کا وقت اللہ تعالیٰ نے متعین کیا ہے۔ دوسروں کی بہتری اور مفاد عامہ کے لیے کیے گئے کاموں کے صلے میں اللہ نے مجھے نئی زندگی عطا کی۔ میرا پیغام محبت ہے، جو جہاں تک پہنچ سکے!
میری زندگی کی نصف صدی کے شب و روز

Facebook Comments Box