زمینی بدنظمی کا عذاب خدا پہ نا ڈالا جائے!

کالم نگار: ظفر اقبال ظفر
بارشوں کی کثیر تعدادسیلابی شکل میں غریب مڈل کلاس لوگوں کے رہائشی حصوں میں داخل بچے بزرگ نوجوان عورتیں پانی میں بہہ گئے۔کئی مذہبی و سیاسی احباب خدا کا عذاب قرار دیتے رہے۔ حکومتی زمہ داری انسانی جانی نقصان امداد کی صورت دیکر بری الزمہ۔تیس سالوں سے ڈیموں کے فنڈ بجلی بلوں میں وصول کرتے صاحب اختیار احباب کو خدا نے کب ڈیم اور پانی کنٹرول انتظامات کی تیاری سے روکا تھا؟پھر یہ سودی نظام مسلط کرنے والے بے دین لوگ بارشوں کے نقصانات خدا پہ کیسے ڈال سکتے ہیں۔
ریاستی انتظامی امور کی اصلاحات نہ کرنے والوں کو قانونی کٹہرے میں لانے کی بجائے اسے خدا کا عذاب قرار دینے والے ریاستی طاقت سے خوفزدہ ترجمانوں کو بڑا جاہل گنہگار اس لیے قرار دیا جائے کہ یہ زمینی خدا ؤں کو خوش کرنے کے لیے حقیقی خدا کو استعمال کر جاتے ہیں۔بھلا غریب بے بس لاچار لوگوں پر خدا کیوں ناراض ہوگا؟نظام میں بیٹھے شرابی زانی حرام خور گھر گاڑی پٹرول بجلی گیس مراعات لیتے ملکی ادارے چلاتے طاقت و اقتدار کے نشے میں قرآن و حدیث کے قوانین چھوڑ کر انسانیت و پاکستانیت کو روندھنے والوں سے خدا ناراض کیوں نہیں ہوتا؟ان میں سے کسی کا گھر سیلاب میں نہیں ڈوبتا کسی پر بادل نہیں پھٹتے آسمانی بجلیا ں نہیں گرتیں مگر روزگار سے محروم مہنگائی کے ہاتھوں مرتے غریب جن کے لیے صاحب اقتدار کے جیسانہ علاج ہے نہ تعلیم ہے نہ قانون ہے انہوں نے خدا کا کیا قصور کیا ہے جو ان سے خدا ناراض ہوگا؟دین سے دنیا کمانے والے پروپگنڈا کرتے ہیں کہ متاثرہ لوگوں کے زہنوں کوملکی انتظامی امورچلانے والے نالائق مجرموں کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے ان کی غفلتوں لاپرواہیوں غیر زمہ دارئیوں کو خدا کی ناراضگی کا تصور دے کر توبہ اور اصلاح کا مشورہ دیا جائے کیونکہ ان کے زمینی آقاؤں کو اس کی ضرورت نہیں وہ عمل و کردار میں درست سمت جا رہے ہیں۔
ایک سو پچاس سے زائد ملکوں میں ہونے والی بارشیں مسلم ملک پاکستان میں غریبوں پر خدا کا عذاب بن جاتی ہیں جبکہ اسرائیل جیسے درجنوں خدا اور اسلام دشمن شرابی زانی سود خورملکوں پربارشیں خدا کا عذاب بننے کی بجائے حفاظتی انتظامی امور کی وجہ سے انسانی نقصان کیے بغیر نکل جاتی ہیں۔ایک سوال یہ بھی پیدا کرتے ہیں کہ مسلمان خدا پہ ایمان رکھتے ہیں اس لیے انہیں دنیاوی مشکلوں میں ڈال کر اسلام کے راستے پہ لایا جاتا ہے؟یار ہمارا خدا صرف مشکلوں پر ہی قادر ہے کہ تکلیفیں دے کر سدھارے گا۔وہ امن و سلامتی پر مبنی ہدایت دینے پر حکم صادر کیوں نہیں فرماتا؟ہر مسلمان ہدایت کا طلبگار ہے پھرخدا ہدایت مانگنے والوں کو تکلیفیں کیوں دے گا؟اپنی جہالتوں کی وجہ سے اسلام کو خطرہ میں ڈالنے والوں کی منافقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کافر ممالک کے کنٹرولرجو خدا کو نہیں مانتے مگر اسلام اصولوں کو قانون بنا کر اپنے ملک و قوم کوزمینی نقصانات سے بچا کر معاشی ترقی کی بلندیوں پر لے گئے ہوں مگر پاکستان میں عام عوام جھوٹ ملاوٹ دھوکہ بددیانتی غیر شرعی منافع روزگار کا اصول بنائے ہوئے ہیں اس لیے ان پر ویسے ہی صاحب اختیار واقتدار مسلط کیے جاتے ہیں اور اس کی دلیل میں (خدا کا فرمان جیسی عوام ویسا حکمران) مجھے خدا کے کسی فرمان سے کوئی انکار نہیں مگر خدا کے فرمان کو بھی ٹھیک سمجھا یانہیں گیا۔نیک پرہیز گار عبادت گزار حلال خور لوگوں کی وجہ سے بگڑے معاشرے سدھرے ہیں ناکہ بگڑے جاہلوں کی وجہ سے باعمل لوگ راہ حق سے اترتے ہیں۔ جتنے بھی خدائی راہنمالوگ زمین پر آئے وہ بدترین حالات میں جاہل ترین عوام میں آئے ہیں خود وجہ تخلیق کائنا ت خاتم النبین حضرت محمد ؐ بھی بگڑے ترین جہالت زدہ معاشرے میں تشریف لائے اور خدائی قوانین کے نفاد سے بگڑے لوگوں کو راہنما بنا کرتکلیف ذدہ معاشرے کو حقوق العباد کی عملی صورت میں عزت و آسانی دے کر حقوق اللہ کے باعمل انسان بنا گئے۔حقوق کی فراوانی پر کام کیا کیونکہ بیکاری نہ خدا کو پسند ہے نہ اسلام کو۔
سوال یہ ہے کہ جتنی بھی خدا ترجمان ہستیاں جہاں جہاں تشریف لائی ہیں وہ بداعمال جاہل لوگ اس قابل تھے کہ انہیں ایسے مقدس لوگ میسر آتے؟ایک ایک ہستی نے سینکڑوں سالوں کے لیے اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کو اپنی صورت میں ہدایت کے چراغ بخشے ہیں وہ نہ تو حالات جیسے تھے نہ معاشرے جیسے تھے مگر دونوں کو سدھارنے کامثالی کام کر گئے۔
آج جو فروغ اسلام کے نام پر دین کی ترجمانی کر رہے ہیں ان کا بس صرف عام مسلمانوں پر کیوں چلتا ہے ان کو غریب بے بس لاچار طبقہ ہی اسلام سے دُور کیوں نظر آتا ہے؟جبکہ عام عوام پر خدا سے جنگ یعنی سود مسلط کرنے والے حکمران جو اسلامی قانون خلافت کی بجائے غیر اسلامی قانون جمہوریت کے نام پر نہ اسلامی رہنے دے رہے ہیں نہ جمہوری اور اسلامیت و انسانیت کانقصان بن کر منظر عام پہ ہیں ان کو اسلام پر لانے کے لیے اسلام ترجمان وقت اختیار میں نتائج کیوں نہیں دیتے تاکہ اسلامی قانون کے نفاد سے معاشرہ مستفید ہو سکے۔ریٹائر منٹ کے بعد ان کے لیے توبہ و ہدایت کے ساتھ جنت کا پلاٹ دلانے والی جماعتیں اقتدار تحفظ یزید کے لیے آسانی پیدا کرتے ہوئے اسلام حسین ؓ سے منافقت کر رہی ہیں۔اقتدار و دولت کے نشے میں گمراہ لوگوں نے اپنی اصلاح آپ کرتے ہوئے سیاست و حکومتی طاقت کی بیساکھیاں پھینک کر خدمت کے رستوں پرننگے پاؤں چلنا شروع کیا تو زمین نے قدموں کے بوسے لیتے ہوئے استقبال کیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی گمراہ نے شرم و حیا کا لباس پہن کر عزت کا زائقہ چھک لیا ہو پاکیزہ نیت سے سچی طلب کا پہلا قدم اُٹھتے ہی مزل اس کی جانب سفر کرنے لگتی ہے۔میں جب بھی معاشرے کے حسن کے بارے میں اصلاحی تجویز سوچتا ہوں تو حضرت علیؓ کا قول سامنے آ جاتا ہے کہ دنیا اس لیے بری نہیں کہ یہاں برے لوگ زیادہ ہیں بلکہ دنیا اس لیے بری ہے کہ یہاں اچھے لوگ خاموش ہیں۔اچھائی برائی کے آگے دیوار کب بنے گئی؟

Facebook Comments Box