ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے شام کی تقسیم کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو “دہشت گرد ریاست” کا لیبل دیا۔ یہ بیان انہوں نے شام میں اسرائیلی فوجی مداخلت اور جارحیت کے تناظر میں دیا، جسے وہ خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ ذیل میں اس بیان کا مفصل جائزہ پیش کیا جاتا ہے، جو ویب رپورٹس اور ایکس پوسٹس پر مبنی ہے۔
بیان کا پس منظر
سماء ٹی وی کی 17 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، اردوان نے کہا کہ “اسرائیل ایک لاقانونیت، لاپرواہ بگڑی ہوئی اور غیر اصولی دہشت گرد ریاست ہے۔” انہوں نے شام کی تقسیم کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ “ہم نے شام کو کل تقسیم نہیں ہونے دیا، اور آج یا کل بھی اسے تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔” ان کا الزام تھا کہ اسرائیل ڈروز برادری کی آڑ میں شام میں فوجی کارروائیاں بڑھا رہا ہے، جو خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے۔
ایکس پر @RTEUrdu نے 24 مئی 2025 کو پوسٹ کیا کہ اردوان نے اسرائیل کے شام پر قبضے اور جارحیت کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ ترکی اس کے خلاف آواز بلند کرتا رہے گا۔ اسی طرح، 4 جولائی 2025 کو انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت خطے کو خون میں نہلانے پر تلی ہے، اور فلسطین کے مقصد کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔
شام میں اسرائیل کی کارروائیاں
- فوجی مداخلت: بی بی سی کی 2 مئی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے شامی دروز فرقے کے تحفظ کے بہانے دمشق میں بمباری کی۔ وکی پیڈیا کے مطابق، 2013 سے 2017 کے درمیان اسرائیل نے شام میں حزب اللہ اور ایرانی اہداف پر متعدد حملے کیے، جن میں 30 جنوری 2013 کا حملہ شامل ہے، جب اسرائیلی طیاروں نے شام کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا جو مبینہ طور پر حزب اللہ کے لیے ہتھیار لے جا رہا تھا۔
- گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ: اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا، اور اقوام متحدہ اسے اب بھی مقبوضہ علاقہ سمجھتی ہے۔ بی بی سی کی 30 مئی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے فرانسیسی صدر سے ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی بات کی، لیکن 46.35 فیصد شامی شہریوں نے ایک سروے میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی مخالفت کی۔
- تازہ حملے: امت نیوز کی 21 جون 2025 کی رپورٹ کے مطابق، اردوان نے کہا کہ اسرائیل نے یمن، لیبیا، اور شام پر جارحیت کے بعد ایران پر بھی حملہ کیا، جو خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اردوان کا موقف اور علاقائی اتحاد
اردوان نے اسرائیل کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے اسلامی ممالک کے اتحاد پر زور دیا۔ ڈان نیوز کی 8 ستمبر 2024 کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ “اسرائیلی تکبر اور ریاستی دہشت گردی کو روکنے کا واحد راستہ اسلامی ممالک کا اتحاد ہے۔” انہوں نے ترکی کے مصر اور شام کے ساتھ بہتر تعلقات کو خطے میں اسرائیل کی توسیع پسندی کے خلاف ایک حکمت عملی قرار دیا۔
امت نیوز کی رپورٹ کے مطابق، اردوان نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ہٹلر سے تشبیہ دی اور کہا کہ وہ خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اسرائیلی جارحیت روکنے کا مطالبہ کیا اور مذاکرات کے ذریعے حل کی وکالت کی۔ ایکس پر @RTEUrdu نے 30 ستمبر 2024 کو پوسٹ کیا کہ اردوان نے غزہ کی جنگ کو پورے مشرق وسطیٰ کی جنگ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد تنظیم کی طرح کام کر رہا ہے۔
شام کی صورتحال
- عبوری حکومت: بی بی سی کی 5 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، شام کی عبوری حکومت نے بشار الاسد کی معزولی کے بعد ایک نیا ریاستی نشان متعارف کیا، جس میں ایک سنہرا عقاب اور تین ستارے شامل ہیں، جو شام کے اتحاد اور تنوع کی علامت ہیں۔ عبوری صدر احمد الشرع نے کہا کہ یہ نشان شام کی تقسیم کے خلاف ہے۔
- فرقہ وارانہ تشدد: اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل خالد خیری نے 18 جولائی 2025 کو خبردار کیا کہ شام میں فرقہ وارانہ فسادات اور اسرائیلی حملوں سے پرامن تبدیلی کا عمل خطرے میں ہے۔
تنقید اور چیلنجز
- ایک طرفہ بیانیہ: ایکس پر @ultra_ehsan نے 6 جولائی 2025 کو اردوان پر تنقید کی کہ وہ خود شام میں مداخلت کے ذمہ دار ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھتے ہیں، جو ان کے بیانات کو منافقت بناتا ہے۔
- علاقائی پیچیدگیاں: شام کی خانہ جنگی میں ایران، حزب اللہ، اور روس کی شمولیت نے اسرائیل کے حملوں کو جواز فراہم کیا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق، اسرائیل نے شام میں ایرانی اور حزب اللہ کے اہداف کو نشانہ بنایا، جسے وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔