اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک میں فتنہ کی سرکوبی کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں ”کہ ان سے قتال کروحتیٰ کہ کہ فتنہ ختم ہوجائے اوردین اللہ کے لیے ہوجائے“۔اس سے مراد یہی ہے کہ فتنہ ہمیشہ دین کے خلاف ہوتا ہے،اوربالخصوص اللہ کے دین کے خلاف ہوتا ہے۔اگر دین سے مراد نظامِ حکومت لیا جائے جیسا کہ اس کے معنی میں قرانِ پاک میں ایک ارشاد کا مفہوم ہے،”جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین لائے گا اے قبول نہ کیا جائے گا“کوئی طرزِ حکومت یا نظامِ معاشرت دین ہی کہلاتا ہے۔مذہبی طورپرعلماء اس کے بارے میں حتمی حکم لگا سکتے ہیں، لیکن میری کمترین علمی اور فکری سمجھ میں دین سے مراد نظامِ زندگی یا حکومت ہی ہے۔ اب نظامِ حکومت یا زندگی کے لیے لوگوں نے کچھ قانون اورقاعدے بنارکھے ہوتے ہیں،اوران سب سے اعلیٰ وارفع قوانین اللہ تعالیٰ کے ہیں،جوزندگی کے ہرپہلواورانسان اوراس کے ماحول کی ہرضرورت کے لیے کافی ووافی ہیں۔لیکن اس کے باوجود شیطان جوحکمِ الٰہی پرانکارکاموجب ہوا،اس نے فتنہ کی بنیادرکھی،اورپھراس فتنہ کوآدم اورحواکے دل ودماغ میں ایک خواہش ِ زندگی بنا کر ڈالا اوران سے ارتکابِ خطاکرایا کہ اللہ کے ممنوعہ شجرکوکھالیا،جس کی سزاوہ جنت سے دنیا کے اندر پٹخ دئیے گئے۔اب اولادِ آدم نظامِ دنیا میں احکامِ خدا وندی کے خلاف وساوسِ شیطانی کے فتنوں میں مبتلاہوتے رہے،اورباربار اللہ تعالیٰ ان کو اپنے دین پرقائم کرنے کے لیے انبیاء کرام کو بھیجتے رہے،لیکن باوجود اس کے ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم وبیش انبیاء کرام کے اس عالمِ انسانیت میں تشریف لانے کے انسان فتنوں میں مبتلا ہوتے رہے،آخری رسولِ معظم ﷺکے تشریف لانے کے ساتھ اللہ کی آخری کتاب قران کریم انسانوں کے لیے ایک مینارہ نور ومنبعِ رشد وہدایت موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مقدس ترین کتاب کو ضابطہ حیات وکائنات بنا کر خود اپنی حفاظت سے مشرف فرمایا ہے،جس کا ہرنقطہ وحرف محفوظ ومستحکم ہے،جوجس جہاں میں ہے اس کو اس جہاں کے ضابطہ کے مطابق اس سے راہنمائی ملتی ہے،غیر مسلم اقوام بھی قرانِ پاک ہی کی راہنمائی میں اپنے اپنے ممالک میں فلاحی قوانین بنارہے ہیں،لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ ان قوانین سے استفادہ کرتے ہوے بھی ان پر ایمان نہیں لاتے،موجودہ جمہوریت کا حوالہ بھی اسلامی مساواتِ انسانی ہی سے لیا گیا ہے،گوکہ اس میں اپنی مرضی کے شیطانی مقاصد بھی شامل کرلیے گئے ہیں،لیکن انسانوں کو برابری،اورحقِ خود ارادی،حکمرانوں سے جواب دہی،اوراپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا،یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات سے اخذ کیے گئے ہیں۔لیکن ان کوپھراپنی مادر پدر آزادی اورانتشار وافتراق کے لیے استعمال کرنا شیطانی تراکیب کا حصہ ہے،اوراکثراسلامی حکومتوں میں عالمی سازش کے تحت ان فتنوں کے ذریعے عدمِ استحکام اورانتشار پھیلایا جاتا ہے۔ عوام کے اندر ان کی بعض محرومیوں اورضرورتوں کو اٹھایا جاتا ہے،اورپھراس پراحتجاج کے لیے ابھاراجاتا ہے،انسانی فطرت جہاں نیکی اورانس رکھتی ہے وہاں ہی شرانگیزی اورفتنہ بھی اس کاحصہ ہے،لہذابھلے کے لیے اٹھنے والی آوازاکثربرائیوں کوپھیلادیتی ہے،ایسی کاروائیاں جن سے کچھ بھلاہوتا ہے،زیادہ تربرائیوں کو جنم دیتی ہیں،اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے استعماری جمہوریت کے مادرپدر آزادروئیے لوگوں کو جہاں عوام کے ایک دومطالبوں کو تسلیم کراتے ہیں،وہاں ہی ملک وقوم کے درجنوں نقصانات کردیتے ہیں،اوریہ مطالبے منوانے کے لیے احتجاج اب ہمارے ملک میں سوائے فوج کے ہرادارے اورمحکمے میں در آیا ہے،ہمارے آزاد کشمیرمیں احتجاجوں سے نپٹنے والے خود احتجاج پراتر آئے۔اب کوئی بتائے کہ باقی عوام کیا کریں گے۔لہذاقوم کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا احتجاج کریں جس میں وہ ایک ہی مطاپبہ کریں کہ اس نظام کو تبدیل کیا جائے،جس میں بغیراحتجاج کے ملازمین کو تنخواہ تک مناسب نہیں ملتی،اورعوام کواپنے حقوق دستیاب نہیں ہوتے، حکومت اس وقت تک عوام کے نام پرترقیاتی بجٹ کوبھی صرف نہیں کرتی جب تک عوام سڑکیں بند نہ کریں۔ چالاک لوگ لوگوں کو ابھارتے ہیں کہ اب آپ لوگ شعور حاصل کرچکے ہیں،وہ پرانا زمانہ گیا کہ لوگوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے حقوق کیا ہیں،لہذااپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں پوری دنیا تمہارے ساتھ کھڑی ہوگی،اوربھولے عوام یہ نہیں سوچتے کہ فلسطین والے کیا بے شعور ہیں،اورکیا وہ اپنے حق کے لیے نہیں بول رہے،لیکن ساری دنیا انکی آوازدبانے میں لگی ہوئی ہے ناکہ ان کے ساتھ کھڑی ہے،لہذامسلم امت جہاں بھی حق مانگے گی،ان کے ساتھ یہی ہوگا۔اپنے ممالک میں نظام کی تبدیلی اوروہ بھی اسلامی نظام سے جب تک تبدیل نہ کریں گے اس وقت تک قوم اورملک میں یہ فتنے اورفسادات جاری رہیں گے۔چونکہ ان تمام سیاسی شعور اور عوامی ہمدردیوں کے پیچھے استعماری اوریہودی ایجنڈے کام کررہے ہیں، جن کا بنیادی مقصداسلامی ممالک میں عدمِ استحکام پیداکرنا،عوام میں نفرت اورتشدد کی آگ بھڑکانا،لاقانوننیت کوفروغ دیناہے،اورپھراس کو عوامی حق قرار دینا، جب کہ کوئی بھی احتجاج جب ہوتاہے،توسودوسو عوام کا توحق ملتا ہے لیکن ہزاروں عوام کاجو حق مارا جاتا ہے، کبھی عوام نے یہ بھی سوچا، لیکن یہ توصرف اسلام سے مستفید غیرمسلم قومیں اورحکومتیں ہی سوچتی ہیں،یورپی غیرمسلم حکومتیں احتجاج کے لیے روکتی نہیں لیکن ان کے بنے ہوے احتجاجی مقامات کے علاوہ کسی کو کسی سڑک کے بندکرنے یا کسی سرکاری اورغیرسرکاری مقام کا گھیراوکرنے کی اجازت نہیں دیتیں،حتیٰ کہ جس بات کو وہ اپنی مذہبی یا قومی مخالفت سمجھیں اس پربولنے کی بھی اجازت نہیں دیتیں،جس میں آج کل فلسطین کے بارے میں کسی کواحتجاج کرنے کی اجازت نہیں،اوروہاں پاکستان اوراسلامی ممالک کے ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہیں جو ان قوانین کواطمینان سے قبول کیئے ہوے ہیں،لیکن وہی جمہوریتیں پاکستان میں فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے لیے اپنی اسمبلیوں میں بھی جمہوری حق کہہ کران لوگوں کی حمایت کرتے ہیں، کیوں؟اس لیے کہ اس طرح وہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کو کمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیں،جوشاید اس قوم کو جب سمجھ آئیں اس وقت وہ خودان کو دبوچ چکے ہوں، اورپھران کے وہ تمام جمہوری حق اُن کے قدموں میں پامال ہورہے ہوں۔اللہ تعالیٰ مسلم امہ اوربالخصوص پاکستانی قوم کو ہدایت توفیق دے کہ وہ سمجھ جائے کہ ”سرِ آئینہ میرا عکس ہے،پسِ آئینہ کوئی اورہے“آمین وماعلی الاالبلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم
پسِ آئینہ کوئی اورہے

Facebook Comments Box