غلاموں کے امام اورشیوخ

اسلام ایک روحانی مذہب ہے، اس کے احکام جہاں دنیاوی مسائل کاحل ہیں،وہاں ہی ان پرعمل کرنے سے انسان کی روحانی بالیدگی بھی ہوتی ہے،اسی لیے اللہ کریم نے نبی پاک ﷺکے فرائض میں جہاں کتاب وحکمت کی تعلیم کوذکرفرمایا وہاں ہی تزکیہ نفوس کاذکربھی فرمایا،میرے اپنے کم علم کے مطابق کوئی بھی آسمانی مذہب علم وحکمت اورتزکیہ ِ نفوس کے بغیرآسمانی دین کہلاہی نہیں سکتا،اسی لیے جب بھی انسانوں نے کسی آسمانی دین کواپنی خواہشات اورشیطانی آمیزشوں سے آلودہ کردیا تواس قوم پراللہ نے کوئی نیا نبی مبعوث فرمادیا،کرتے کرتے خاتم النیین ﷺکادور آیا آپ کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیرِ کعبۃ اللہ پرجواللہ سے اجرمانگاوہ یہ تھا۔”ربناوابعث فیھم رسولامن ھم یتلوعلیھم اٰیٰتک ویعلم ھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم“ (البقرہ) اے رب بھیج ان میں رسول انہی میں سے جوپڑھے ان پرتیری آیتیں اورسکھائے ان کوکتاب اورحکمت اوران کوپاک کرے۔یعنی دین کے احکامات جہاں دنیاوی مسائل وضروریات کاحل ہیں وہاں ہی وہ پاکیزگی نفس اوربالیدگی روح کا بھی ذریعہ ہیں۔تمام انبیاء کے ادوارمیں ان کے اصحاب وتابعین پاکیزگیِ نفوس اورروحانیت سے بھرپورہوتے تھے،جن میں ایک مشہورواقعہ جوقرانِ پاک میں ایک صحابی حضرت ِ سلیمان علیہ السلام کاہے، جوتختِ بلقیس پلک جپکنے میں دربارِ حضرتِ سلیمان علیہ السلام میں لے آئے۔اسی طرح قرانِ پاک میں قصہ حضرتِ موسیٰ کے تحت ایک بندے کے حوالے سے ذکرفرمایاکہ اس سے حضرتِ موسیٰ نے ملاقات کی خواہش کی اللہ نے اس کاپتہ بتایا آپ گئے آپ نے اس سے فرمایا مجھے اپنے ساتھ رکھوکہ میں تم سے علم سیکھنا چاہتا ہوں، اس نے کہاآپ میرے ساتھ صبرنہ کرسکیں گے، آپ نے فرمایامیں صبرکرلوں گا، اب طے ہواکہ میرے کسی فعل پر اعتراض نہ کرنا، آپ نے فرمایاٹھیک ہے،اب چلے ایک کشتی پربیٹھے،اس بندے نے اس کشتی کاایک تختہ توڑدیا،موسیٰ بولے،اس نے کہامیں نے نہیں کہاتھاآپ صبرنہ کرسکیں گے، آگے چلے ایک بچہ ملااس بندے نے اسے ماردیا،موسیٰ تڑپ اٹھے بے گناہ کو ماردیا۔کہابس،توموسیٰ علیہ الاسلام نے آخری مہلت مانگی،ایک گاوں میں پہنچے انہوں نے مہمان نوازی سے انکارکردیا،نکلنے لگے ایک گرتی ہوئی دیوار کوسیدھاکھڑاکردیا، موسیٰ نے فرمایااگران سے اجرت لے لیتے توکھانا کھالیتے،اس نے کہابس۔اب سنو!وہ جوکشتی تھی غریبوں کی تھی جواپنے اہل وعیال کے لیے اس پرروزی کماتے تھے،پیچھے ایک ظالم بادشاہ آرہاتھا،وہ سب کی صحیح کشتیاں چھین رہاتھا،میں نے اسے شکستہ کردیا کہ وہ ظالم لے نہ جائے۔وہ جوبچہ تھااس کی تقدیرمیں کافرلکھاہواتھا،اوروہ اپنے ماں باپ کو بھی کفرمیں لے جاتا،ہم نے چاہاکہ ان کا رب اس کے بدلے ایک رحمت عطافرمائے، وہ جودیوارتھی وہ دویتیم بچوں کی تھی جن کے باپ نے اس کے نیچے ان کے لیے مال چھپاکررکھاتھا،اگروہ گرجاتی تووہ مال ان بچوں کے بجائے لوگ نکال لیتے،اب جب وہ جوان ہوں گے اسے نکال لیں گے،یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبرنہ کرسکے۔ہمارے دینِ اسلام میں جوتمام آسمانی ادیان کامکمل دین ہے،اس میں دورِ صحابہ میں سارے ہی ظاہری اورباطنی طورپر علمِ کتاب اورحکمت اورتزکیہ سے مزین تھے،لیکن دورِ صحابہ کے بعددین تعلیمِ کتاب وحکمت میں جس طرح عمل سے خالی ہوگیا،وہاں ہی تزکیہ توخال خال ہی رہ گیا،اورپھراس کے لیے بھی صاحبانِ علم وحکمت نے کچھ فلسفے کچھ ریاضتیں کچھ مسخراتِ ماورائی پرتصرف حاصل کرکے مافوق الفطرت قوتوں کاحصول مقصد بنالیا اوراسے روحانیت کہاجانے لگا۔ہرزمانے میں سوائے چندلوگوں کے باقی صاحبانِ روحانیت یہی کشف وکرامت، خرق عادت،طلسم وسحرسے اپنے مقاصد کوحاصل کرنے میں لگے رہے،یہی وجہ ہے کہ اسلام پھیلتاتوگیا لیکن اسلام دنیا میں نافذنہ ہوسکا،پاکستان بننے سے پہلے سے صاحبانِ کشف وکرامات نے پیشین گوئیاں توکردیں، لیکن پاکستان بن جانے کے باوجودآج اٹھہترسال گزرگئے نہ پاکستان میں اسلام نافذہوسکانہ پاکستان میں غیراسلامی نظام کے تحت امن وترقی ہوسکی،کیوں کہ پاکستان کے مسلمان اسلام کے روحانی بزرگان سے امیدرکھے ہوے ہیں کہ وہ کوئی نظر فرمائیں گے تواچانک پاکستان کی دنیا بدل جائے گی، لیکن روحانی بزرگان نے روحانیت کوایک علیحدہ ہی رنگ دے رکھا ہے،کہ روحانیت اورشریعت یعنی دین،جس کے تحت ملک ومعاشرہ چلتا ہے یہ دوعلیحدہ چیزیں ہیں،جبکہ ملک ومعاشرہ دین یعنی شریعت کے تحت ہوتووہ روحانی بھی ہوتا ہے یاروحانیت اسی میں در آتی ہے،لیکن نبوت کے بعدسارے علوم وتزکیے صراطِ مستقیم کے محتاج ہوتے ہیں،کوئی ذراساپھسلاتوراہ توچلتارہے گالیکن منزل ناپاسکے گا،ان گزرے ہوے اٹھہترسالوں میں شایدکہیں ایک کوئی اہلِ نظرہواہو جس نے ملک وقوم کی اسلامی ضرورت یاانسانی ضرورت پرہی توجہ فرمائی ہو،ورنہ یہاں توجس نے جس کوخوش کیااس نے اس کی پیٹھ تھپک دی،گداوں کو شاہ بنانے والوں اورشاہوں کوگدابنانے والوں کے قصے چلتے رہے،کسی نے کہیں دھمال ڈالی، کسی نے کہیں سوٹے کھائے،کسی نے کسی دربارپرجھاڑولگایا،تواقتدارکی پینگ پرچڑھ گیا،لیکن یہ بے گناہ مظلوم عوام کاکیا قصورہے کہ آج تک کسی کی نظران پرنہیں پڑرہی، کہتے ہیں جنیدِ بغدادی کے سامنے ایک کتا آیاتوآپ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوگئے،مریدوں نے عرض کیا حضورآج یہ کیا ماجراہوا،توآپ نے فرمایا،اس کتے نے مجھ سے سوال کیا،جنیدمجھ سے ازل میں کیا گناہ ہوگیا تھاکہ اللہ نے مجھے کتابنادیا اورتجھ سے کیا نیکی ہوئی تھی کہ تجھے جنیدبنادیا،توآپ نے فرمایاکہ میں نے اس لیے اس کے آگے ہاتھ باندھ لیے کہ بھائی یہ مجھ پرصرف اس کی رحمت ہے۔ اے کاش آج کے اہل نظربھی اس بات کوسمجھ سکتے اوراپنے انسان بننے اورمقرب ہونے کا حق مجبورمخلوق اورانسانوں کے وہ حقوق اداکرتے جن کا اللہ نے قران پاک میں باربارحکم فرمایا ہے، ناکہ اپنے اختیار سے اپنے نفس کی خواہش پرہربے درد کی تمنائیں بھرتے،اگرپاکستان کے اندرکے یہ تمام امامانِ امت،اورشیوخ ِ خانقاہاں اپنے اپنے ماننے والوں کواسلام کے نظام کے نفاذکے لیے حکم دیں تویہ ظلم کی رات ایک ہی دن میں ڈھل سکتی ہے،لیکن علامہ اقبال نے فرمایا ہے،”ہواگرقوتِ فرعون کی درپردہ مرید،قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی“اللہ تعالیٰ اسلام کی مددغیب سے فرمائے اورامتِ مسلمہ کوظلم سے نجات عطا فرمائے آمین۔وماعلی الاالبلاغ۔

Facebook Comments Box