ایران پر اسرائیلی حملوں کا پس منظر

تحریر۔عثمان غنی

تاریخی دشمنی اور پراکسی تنازع

اگر آپ ایران اور اسرائیل کے تعلقات کو دیکھیں تو 1979 کے ایرانی انقلاب سے پہلے دونوں ممالک اتحادی تھے۔ انقلاب کے بعد ایران کی نئی حکومت نے اسرائیل کو ”چھوٹا شیطان“ قرار دیتے ہوئے اس کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے اسرائیل کو ”سرطانی رسولی“ کہا، جو اس کی پالیسی کا بنیادی حصہ بن گیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک ایک پراکسی جنگ میں الجھے ہیں، جہاں ایران حماس، حزب اللہ اور حوثیوں جیسے گروہوں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام اور اس کی علاقائی سرگرمیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ 1980 کی دہائی میں اسرائیل نے ایران کو اسلحہ بھی فراہم کیا تھا، لیکن یہ تعاون عارضی تھا۔

2024 میں کشیدگی کا آغاز

آپ نے دیکھا ہو گا کہ 2024 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم بڑھا۔ اپریل 2024 میں اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا، جس میں دو ایرانی جنرلوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوئے۔ ایران نے اس کا جواب 13 اپریل کو ”آپریشن ٹرو پرامس“ کے تحت 300 سے زائد ڈرونز اور میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ کر کے دیا۔ اسرائیل نے اس حملے کو امریکی اور اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا، لیکن اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ اسرائیل نے 18 اپریل کو اصفہان میں ایرانی فضائی دفاعی نظام پر محدود حملہ کیا، جسے ایران نے نظر انداز کر دیا۔

جولائی اور ستمبر 2024 کے واقعات

جولائی 2024 میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ کی تہران میں ہلاکت، جس کا الزام ایران نے اسرائیل پر لگایا، نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ اس کے بعد ستمبر میں اسرائیل نے بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایرانی کمانڈر عباس نیلفروشان کو ہلاک کر دیا۔ ایران نے اس کا جواب یکم اکتوبر کو 180 بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ کر کے دیا، جسے اسرائیل نے جزوی طور پر ناکام بنایا۔ یہ حملہ ایران کی طرف سے دوسرا براہ راست حملہ تھا، جس سے اسرائیل نے جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔

اکتوبر 2024 کے حملے

آپ کو معلوم ہو گا کہ 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے کیے، جن میں تہران، خوزستان اور ایلام کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے اکتوبر کے ایرانی میزائل حملوں کا جواب تھے۔ ایران نے کہا کہ اس کے فضائی دفاعی نظام نے زیادہ تر میزائل روک لیے اور نقصان محدود رہا، لیکن چار فوجی اور ایک شہری ہلاک ہوئے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسے نہ زیادہ بڑھایا نہ کم کیا، لیکن جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔

جون 2025 کے حملے

13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی اہداف پر بڑے پیمانے پر حملے کیے، جنہیں ”آپریشن رائزنگ لائن“ کا نام دیا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ یہ حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ناگزیر تھے۔ نتنز جوہری تنصیب کو نقصان پہنچا، لیکن IAEA نے تصدیق کی کہ تابکاری کی سطح میں اضافہ نہیں ہوا۔ ایرانی میڈیا نے بتایا کہ حملوں میں IRGC کے سربراہ حسین سلامی، فوج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری اور چھ جوہری سائنسدان ہلاک ہوئے۔ ایران نے 100 سے زائد ڈرونز سے جوابی حملہ کیا، جسے اسرائیل نے ناکام بنا دیا۔ یہ حملے ایران کے جوہری پروگرام اور فضائی دفاع کو شدید نقصان پہنچانے کے لیے تھے، لیکن ان سے خطے میں وسیع تر جنگ کا خطرہ بڑھ گیا۔

اہم وجوہات اور محرکات

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ 2025 میں IAEA نے ایران کو جوہری معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، جس سے اسرائیل کو حملوں کا جواز ملا۔ ایران کی طرف سے حزب اللہ اور حماس کی حمایت، اور اسرائیل کے خلاف پراکسی حملوں نے بھی کشیدگی بڑھائی۔ دوسری طرف، ایران اسرائیل کے حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھتا ہے اور جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

عالمی ردعمل

امریکہ نے اسرائیل کے اکتوبر 2024 کے حملوں کو خود دفاعی قرار دیا، لیکن جون 2025 کے حملوں میں شمولیت سے انکار کیا۔ صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو ترجیح دی، لیکن ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی آپشن کھلا رکھا۔ اقوام متحدہ اور IAEA نے جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی اور فریقین سے تحمل کا مطالبہ کیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *