تحریر۔نظام الدین
1947 برصغیر سے برصغیر میں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور 1948 کے پش منظر کی تاریخ کے تناظر میں میرے والد مرحوم بتاتے ہیں ہم انڈیا کے علاقے بدایوں سے عازم سفر کے بعد کراچی کے جس مقام پر خیموں میں آباد ہوئے تھے وہ شہر کی آخری حدود میں اونچے نیچے پہاڑی ٹیلوں اور جنگلی کیکروں پر مشتمل جنگل تھا جسے شروع میں
(مہاجر بستی) کہا جاتا تھا یہاں ہمیں رہائش پذیر ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک شام کچھ پولیس اہلکار کمشنر کراچی کے ساتھ اس (مہاجر بستی) میں تشریف لائے اور ایک پہاڑی ٹیلے پر نشان لگا کر اعلان کیا کہ اس جگہ کو جناح صاحب کی آخری آرام گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے الہزا آپ لوگ آج رات میں اس جگہ کے ارد گرد کو خالی کردیں اس اعلان کے بعد وہ جگہ جہاں اب
( مزار قائد) ہے اس کے ارد گرد کی زمین کو صاف ستھرا کردیا گیا ، اور دوسرے دن شام کے سائے میں جناح صاحب کا جنازہ گورنر جنرل ہاؤس سے یہاں لایا گیا،، جہاں ہزاروں لوگ اشکبار تھے ،،،
یہ ہجرت کے آنکھوں دیکھے منظر اور کچھ کم لکھے جانے والے واقعات والد محترم اکثر بیان کیا کرتے تھے ،
وہ بتاتے تھے تقسیم برصغیر کے پیچھے گہری سامراجی سازشی حکمت عملی چھپی ہوئی تھی برطانوی پالیسی برصغیر میں اپنا اقتدار بچانا نہیں بلکہ مستقبل کا عالمی نقشہ اپنے مفاد میں موڑنا تھا ، کیونکہ انگریزوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ برصغیر کے مسلمان صرف مقامی ہی نہیں بلکہ عالمی اسلامی امور سے باخبر اور منظم بھی ہورہے ہیں آگر وہ اسی طرح جناح صاحب کی قیادت میں متحدد ہوتے رہے تو یہودیوں کے گریٹر اسرائیلی منصوبے پر عمل درآمد میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ،
اس لیے انگریز سرکار نے تقسیم سے پہلے جناح صاحب اور پاکستان کے وجود کے خلاف بےشمار گہری سازشوں کے جال بچھا دے تھے ، برطانیہ نے جب تقسیم کا اعلان کیا تو سرحدوں کی تقسیم کا تعین اور سروے کا کام ایک برطانوی وکیل سائریل ریڈکلف کے سپرد کیا جس نے کبھی برصغیر کا دورہ تک نہیں کیا تھا اور نہ ہی سرحدوں کو دیکھا تھا ، سروے کا کام (ریڈکلف) سے چھ ہفتوں میں کروایا گیا ، جس کی متنازع رپورٹ 17 اگست 1947 میں جاری کی یعنی” آزادی کے بعد جس سے ہجرت کے عمل میں فسادات افراتفری، اور قتل عام کو تقویت ملی ، جبک انگریز حکام نے ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسے ہندو انتہا پسند رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انہیں منظم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کی جبک مسلم رہنماؤں کو مجبور کیا جلد سے جلد پاکستان کی تعمیر اور ہجرت کرنے پر ؟ یہ مسلمانوں کی یکجہتی توڑنے کی ایک گہری سازش تھی پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست بنانے کی تاکہ مستقبل میں پاکستان عالمی طاقتوں کا محتاج بنا رہے اس لیے پہلے
(14 آگست 1947) کو پاکستان بنوایا ،
اور آگلے ہی سال مسلمانوں کی مزاحمت اور احتجاج کے بغیر (14 مئی 1948) کو اسرائیل کی ناجائز حکومت قائم کرادی ،
اور مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف سب سے بڑی آواز جناح صاحب کو ( 1948) تک بستر مرگ پر پہنچا دیا,, اسی سال
( 30 جنوری 1948) کو گاندھی جی قتل ہوگئے انگریزوں نے مسلمانوں کو ہی تقسیم نہیں کیا بلکہ(4 فروری 1948) کو ہندوؤں کی دوسری بڑی ابادی والے علاقے سری لنکا کو الگ ریاست بنا دیا؟
اس ترتیب وار وارداتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ برصغیر کی جلد تقسیم صرف جذبات یا مذہبی وابستگی کا نتیجہ نہیں تھی اور نہ ہی جناح صاحب کی مرضی کے مطابق یہ تقسیم ہوئی تھی ، بلکہ یہ ایک عالمی سامراجی ایجنڈے کا حصہ تھا جس میں فلسطین پر کنٹرول اور اسرائیل کی تعمیر اہم اہداف تھا جبک اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی سب سے بڑی مسلم ابادی کو ہجرت اور دیگر مسائل میں ایسا الجھایا گیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف احتجاج کی پوزیشن میں نہیں رہے،
جناح صاحب کی پراسرار موت ، لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں جلدی جلدی حکومتوں کی تبدیلی اور پھر مارشل لاء ان حالات اور تسلسل کے پیچھے انگریزوں اور یہودیوں کی سازشیں شامل تھیں ،،
انگریزوں کی ایک کوشش یہ بھی تھی کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تعزیرات ہند 1935 کے قوانین کے تحت سلطنت برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھائیں جناح صاحب
کو اس حلف کے الفاظوں پر اعتراض تھا یہ ایک اہم قانونی پہلو تھا اس وقت تک پاکستان میں کوئی سپریم کورٹ یا فیڈرل کورٹ آف انڈیا کی شاخ نہیں تھی اس صورت حال میں سر”عبدالرشید کا نام سامنے آیا جو 29 جون 1889 کو باغبان پورہ کی میاں فیملی کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے حاصل کی۔ کرسچین کالج سے بی اے کی ڈگری لینے کے بعد اسی کالج سے کیمبرج سسٹم کے تحت ماسٹرز کیا اور قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور میں پریکٹس کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران انہیں عدالت میں ملازمت مل گئی جس نے ان کے علم اور تجربے میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد 1923 میں انہیں قائم مقام جج کے طور پر لاہور ہائی کورٹ میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ 1927 سے 1931 کے دوران وہ حکومتِ پنجاب کے تحت ایڈوکیٹ کی زمہ داری نبھاتے رہے۔ 1933 میں لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
1946 میں چیف جسٹس، لاہور بنا دیے گئے، ، اس دوران برصغیر کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو جناح صاحب نے ان سے کئی ملاقاتیں کیں کیونکہ اُنہیں حلف نامے کے الفاظوں پر تحفظات تھے دوسرے انہیں انگریز سرکار سے سر” کا خطاب ملا تھا ؟ دراصل سر” کا خطاب برطانیہ کی وفاداری کا عہد ہوتا تھا سر” کے خطاب کے دو طریقے ہوتے تھے پہلا برطانیہ جا کر شاہِ برطانیہ سے سر” کا خطاب لینا جو ایک خاص شاہی رسم کے تحت بادشاہ یا ملکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر، سر” تھوڑا سا جھکا کر، تلوار سے کندھے پر ہلکا سا لمس لیا جاتا تھا ، جبکہ اگر کوئی شخصیت برطانیہ نہ جاسکے تو وہ خطاب اور سند بذریعہ نمائندہ
(گورنر جنرل یا وائسرائے) پیش کی جاتی، اور یہ رسم علامتی طور پر ادا کی جاتی سر” جھکائے کا کوئی عملی مرحلہ نہیں ہوتا سر”عبدالرشید کو 1934 لندن میں ان کی غیر موجودگی میں ایک سرکاری اعلامیہ میں سر” کا خطاب دیا گیا بعد ازاں یہ اعزاز لاہور میں ایک سرکاری تقریب میں براہ راست تحریری طور پر پیش کیا گیا، اس لیے وہ سر” جھکائے کے عمل میں شامل نہیں ہوئے تھے ،
اگرچہ پاکستان نے 14 اگست 1947 کو ڈومینین اسٹیٹ کے تحت آزادی حاصل کی، اور باضابطہ طور پر برطانوی بادشاہ جارج ششم پاکستان کا سربراہِ مملکت تھا، مگر جناح صاحب نے جو حلف اٹھایا، اس میں بادشاہ کے ساتھ وفاداری کے الفاظ شامل نہیں تھے۔ یہ ایک غیر معمولی اور علامتی سیاسی قدم تھا۔
جناح صاحب کا حلف خاص طور پر سر”عبدالرشید نے ترتیب دیا اس میں پاکستان کی آزادی، خودمختاری، اور عوام کی خدمت کو نمایاں کیا تھا بغیر کسی برطانوی بادشاہ کے ذکر کے۔ اس حلف میں کہا گیا:
“میں محمد علی جناح، صدقِ دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں بحیثیت گورنر جنرل پاکستان، خلوص نیت سے اپنے فرائض انجام دوں گا، پاکستان کے قوانین کی پاسداری کروں گا، اور اپنے فرائض پوری ایمانداری کے ساتھ انجام دوں گا۔”
انشاللہ” اس حلف کے بعد
سر”عبدالرشید نے قلم بڑھایا۔ جناح صاحب نے دستخط کیے۔
پھر چند لمحے دونوں عظیم شخصیات نے ایک دوسرے کو خلوص سے دیکھا، دونوں شخصیات کی آنکھوں میں نمی کو محسوس کیا گیا، دراصل یہ آنکھوں میں آنسوں ایک آزاد ریاست سے ان کہی محبت کے اعتراف میں چھلکے تھے ،،
۔