چودہ اگست اورقومی پرچم

تحریر۔نظام الدین

جب ہم چودہ اگست منانے کے لیے پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں تو ہم پرچم کابغور جائیزہ لیتے ہیں ؟
کہ لہرایا جانے والا پرچم معیار کے مطابق ہے؟
کیونکہ۔
پاکستان کا سبز ہلالی پرچم صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ یہ پرچم خود مختاری آزادی استحکام شہریوں کے لیے یکساں حقوق کا ضامن اور اقوام عالم سمیت مسلمانان عالم کے لیے ترقی خوشحالی اور امن کی علامت بھی ہے
قوموں کے عروج زوال اور تعمیر وترقی کے حوالے سے یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ دنیا میں صرف وہ ہی قومیں کامیابی سے ہم کنار ہوتیں ہیں جو ماضی کی خامیوں پر حال پر نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی مناسب انداز میں کرلیں
میں آج اس اخبار کے صفحات پر گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ایک ایسی بھول۔ خامی، کوتاہی اور غفلت کا انکشاف کررہا ہوں جسیے مفاد پرست حکمران خود غرض سیاستدان اور
بے رحم بیروکریسی نے مصلحتوں اور ضرورتوں کے
دبیز پردوں میں چھپائے رکھا ہوا ہے ،
پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے قیام پاکستان سے پہلے ستارہ ہلال کے سبز پرچم کو اپنے جھنڈے کے طور پر اپنایا ہوا تھا۔
1947 کی تقسیم کے دوران وائسرائے نے قائد اعظم سے پاکستان کے پرچم کے بارے میں استفسار کیا اور کہا کہ دیگر برطانوی مقبوضات کی طرح بھارت نے آزادی کے بعد اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم،، یونین جیک کے لیے مختص کرنے کی حامی بھری ہے
آپ اپنے پرچم میں یونین جیک کو کہاں جگہ دینگے تب قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بننے جارہا ہے اس لیے اس پرچم پر یونین جیک شامل نہیں کیا جاسکتا اس کے بعد قائد اعظم نے دیگر ارکان سے پرچم کے بارے میں مشہورہ کیا اور طے یہ پایا کہ نیوی والے پرچم بنانے میں ماہر ہوتے ہیں آن سے پرچم بنوایا جائے چنانچہ نیوی والوں سے درخواست کی گئی کہ وہ پاکستانی نمائندوں کی تجویز کے مطابق پاکستان کا پرچم بنا کر بھیجیں نیوی والوں نے محتلف طرح کے پرچم تیار کرکے بھیجے آن میں سے ایک جھنڈا اگست 1947 میں جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک چھوٹا سا پرچم لہرا کر دیکھایا جسے بعد ازاں یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا گیا اس پرچم اور اس کے ڈیزائن کو پاکستان کی مجلس دستور ساز اسمبلی نے بخوشی منظور کر لیا آور اسے قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی شرف قبولیت بخشا اور اپنے خطبہ صدارت میں قومی پرچم کے بارے میں اظہار خیال کیا
تاریخ حوالوں معتبر روایات جدید الیکڑونک میڈیا ٹیکنالوجی سمیت دیگر دستاویزات دستیاب مواد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کا پرچم سبز سفید رنگ کے ساتھ ہلال
ؤ ستارہ کو ترقی
ؤ خوشحالی کی علامت کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا چاند کی مختلف حالتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پرچم کی منظوری لیتے وقت علماء نے متفقہ طور پر سبز پرچم پر سفید چاند کی اس شہبہ کؤ مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کی علامت قرار دیا تھا جسے اصطلاحات اور لغت کے اعتبار سے ہلال یعنی پہلے ابتدائی ایامِ کا چاند کہتے ہیں اس تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے معروف شاعر آور ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے ترانہ میں بطور خاص یہ مصرع رقم کیا
پرچم ستارہ ہلال رہبر ترقی و کمال،،
لیکن بدقسمتی سے سبز ہلالی پرچم پر ہلال کی وہ پوزیشن یا جگہ جو اس کے اصل وحقیقی تصور کی عکاسی تھی اکثر الٹ منسلک ہونےلگی ۔ یعنی۔ پاکستان کا جب پرچم تیار ہوتا تو اس میں چاند کی حیثیت جو ہلال کا منظر پیش کرتی تھی۔
ہمارے حکمرانوں سیاست دانوں بیروکریسی کی عدم توجہی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستانی پرچموں پر اکثر آخری ایام کا چاندجسے عام طور پر اماوس کا چاند کہا جاتا ہے پیش ہونے لگا
اس فاش غلطی کوتاہی یا غفلت کا علم 1983 میں پاکستانی پرچم کے معیاری نمونے کی تیاری کے لیے بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران ہؤا جب یہ صورت حال حکومت کے نوٹس میں لائی گئی تو اس وقت کے صدر آور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے خصوصی حکم پر اسے درست کرنے کی ہدایت جاری کی گئی لیکن اسے درست کرنے کے بجائے بیروکریسی نے سینکڑوں بے وزن تاویلات وقتی ضرورتوں مصلحتوں اور سیاسی ماحول کے شکنجے میں کس کر سرکاری فائلوں میں مستقلاً دبا دیا۔
پاکستانی پرچم پر نصب چاند ستارے کی پوزیشن سے متعلق معاملات دفتا دفتا زیر بحث آتے رہے کہی مرتبہ سیاسی جماعتوں اور سرکاری ادروں کو تمبہی کی گئی کہ آئندہ اس طرح کی غلطی سے اجتناب کیا جائے
لیکن پاکستان کے پرچم کی شناخت اور متضاد طرزِ عمل کا سبب بنی رہی
جبکہ دوسری جانب سرکاری دستاویزات نوٹ سکے ریونیو سمیت دیگر ٹکٹوں اسٹامپ پیپر اور متعدد علامتی لوگو پر درست چاند ستارہ کندہ ہے گویاں گزشتہ نصف صدی کے دوران ہم ایک جیسے دو مگر متضاد علامتی نشانات کے سہارے امور سلطنت انجام دیتے رہے ہیں
پرچم کا وہ سبز حصہ جس پر چاند کے ساتھ پانچ کونوں پر مشتمل چاند ستارہ جو ہوا میں لہریا جاتا ہے وہ مسلم اکثریتی کی نشاندھی کرتا ہے جبکہ سفید پٹی آمن اور دیگر مزاہب کی عکاسی کرتا ہے لیکن اکثر پرچم تیار کرتے وقت سفید پرچم کی پٹی کو سبز حصہ کے ساتھ اس طرح منسلک کیا جاتا ہے کہ ہلال کا رُخ بدل کر اماوس بن جاتا ہے ۔
پاکستان کی ترقی آور خوشحالی کی علامت امت مسلمہ کا نشان ہلال کے بجائے زوال کی ترجمانی کرنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں اماوس والا پرچم لہرایا جاتا ہے کسی کا دھیان ہلال کی جانب نہیں جاتا ۔ اور اس اماوس والے پرچم کو ہی پاکستان کے کا علامتی نشان بنالیا جاتا ہے ۔
پرچموں کے حوالے سے تحقیق کے دوران بعض بڑے حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ ایسے تمام مسلم ممالک جن کے قومی پرچموں پر اماوس چاند کی شبیہ ہے وہاں کی سماجی سیاسی معاشی معاشرتی اور اقتصادی صورتحال حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہے۔
ترکی کے قومی پرچم پر نصب نشان بھی اماوس چاند کا ہے ترکی کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ کرد عرب یونانی آرمینائی اور یہودی ابادی پر مشتمل اس ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک عرصے سے گھن کی طرح اس ملک کی معیشت کو چاٹ رہا ہے نسلی گروہ ہی فسادات اور مزہبی وغیر مذہبی فکر کے اختلاف نے فوج کو بار بار مداخلت پر مجبور بنایا ہے۔

ملیشیا کے قومی پرچم پر بھی اماوس چاند کا عکسِ موجود ہے ملوئی چینی اور آنڈین نسلوں سے تعلق رکھنے والے متعدد گروں پر مشتمل یہ ملک بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں محض ایک کھلونا بن کر رہ گیا ہے مغربی ممالک کی سرمایہ کاری سے معاشی ترقی حاصل کرنے والے ملک میں معاشی عدم استحکام نے سیاسی تنازعات کو جنم دینا شروع کر دیا ہے اور نسلی وگروہی تنازعات کے سبب جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک اس سے متاثر ہو رہے ہیں ،
تیونس کے قومی پرچم پر بھی اماوس چاند کا نشان ثبت ہے الجزائر آور لیبیا کے پڑوسی ہونے کے ناطے عرب النسل اور یورپی آبادی کے اشتراک سے یہ ملک آباد ہے مزدور پیشہ آبادی کے حاملِ اس ملک کی معیشت آئے روز عدم استحکام کا شکار رہتی ہے۔
آذربائجان کا قومی پرچم بھی اماوس کے نشان والے چاند پر مبنی ہے
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشکلات کا شکار ہے یہ ملک تاحال اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے معاشی استحکام بڑی حدتک غیر محفوظ ہے
مالدیپ کے دورنگی قومی پرچم پر بھی اماوس چاند کی شبیہ موجود ہے بھارت کے پڑوسی ہونے کے سبب معاشی بالادستی کا تصورِ موجود نہیں ہے۔ بھارتی سیاست کے زیر اثر ہونے کے کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام عام ہے۔
ازبکستان کے کے قومی پرچم پر بھی چاند اماوس والی شکل ہے۔ وسطی ایشیا کی اہم سرحدی علاقے پر واقع اس ملک میں معاشی استحکام کسی حدتک موجود ہے تاہم سیاسی ابتری کا ماحول یہاں خاصا ہے۔
پاکستان کے قومی پرچم پر بھی اکثر اماوس والا چاند نظر آتا ہے اس لیے ملک کی سماجی معاشی اقتصادی سیاسی و معاشرتی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے گروہی لسانی اور فرقہ وارانہ سیاست تشدد لوٹ ماد اور کرپشن عروج پر ہے،

ادھر حیرت انگیز طور پر ان ممالک کے قومی پرچموں کا جائزہ لیں جن پر ہلال کا نشان یا اس سے مشابہت علامت ثبت ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ ممالک میں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی استحکام بدرجہ اتم موجود ہے
انگولا جنوبی افریقہ کے اینٹلائنگ ساحلوں پر واقع ہے۔ معاشی اعتبار سے انتہائی مستحکم ہے مچھلی جوتے آور پام آئل کی صنعتیں معاشی ترقی کا سبب ہیں کافی گنا پام آئل گندم تمباکو زراعت کا نمایاں حصہ ہیں معاشی استحکام کی بدولت سیاسی استحکام موجود ہے۔،
ترکمانستان کے قومی پرچم پر بھی ہلال موجود ہے وسطی ایشیا ئی میں سوویت یونین کے منتشر
ہو کے بعد آزار ہونے والی ریاستوں میں یہ ایک اہم مملکت ہے کپاش مکئی اہم فصلیں ہیں کوئلہ سلفر چونے کا پتھر جپسم اور دیگر معدنیات وافر مقدار میں موجود ہے قدرتی وسائل کی فراوانی کے سبب مستحکم معشت کا تصور جس کی وجہ سے سیاسی اعتبار کا ماحول پر سکون ہے۔
چین غیر مسلم ملک ہے لیکن علامتی اعتبار سے چین کے سرخ رنگ کے قومی پرچم پر موجود ستاروں کی سمت حلالی کی شبیہ سے مشابہت رکھتی ہے چین آس دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی وسیاسی قوت ہے معاشی استحکام کا یہ عالم ہے کہ امریکہ سمیت کئی یورپی ایشیائی ممالک کو جب چائے عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے سیاسی ماحول پر امن ہے ویٹو پاور کے حاملِ اس ملک نے مختصر مدت میں جتنی ترقی حاصل کی ہیں اس کی مشال ملنا مشکل ہے،
پاکستان کے قومی پرچم میں تبدیلی کے حوالے سے یہ بات حقیقت واضح ہے کہ آگر حکومت اس ضمن میں سنجیدہ رویہ اختیار کر ہے تو یہ کوئی شرمندگی کا سبب نہ ہوگا دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ حکمران اور سیاستدان اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو دل سے قبول کرتے ہوئے آن کی درستگی کے لیے کوشاں رہتے ہیں بدقسمتی سے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہمارے یہاں یہ روایت نہیں رہی ہم ہر غلط کام کو کرکے نہ صرف اس کو درست ثابت کرتے ہیں بلکہ کمربستہ ہوجاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں ہم مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیتے ہیں ،
۔۔

Facebook Comments Box