11 اگست کا فریب اور حقائق

تحریر۔عبداللہ بلوچ

بلوچ علیحدگی پسند نیٹ ورکس (BSNs) کی جانب سے 11 اگست کے حوالے سے پھیلایا جانے والا پروپیگنڈا پاکستان کی قومی سالمیت، یکجہتی اور آئینی وقار کے خلاف ایک سنگین سازش ہے۔ یہ گروہ مسلسل یہ جھوٹا بیانیہ دیتے ہیں کہ 11 اگست 1947 کو ریاست قلات نے آزادی حاصل کی اور پاکستان سے علیحدہ ایک خودمختار ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دن صرف ایک عارضی انتظامی معاہدہ ہوا تھا، اور قلات کو مکمل داخلی خودمختاری دی گئی، خارجہ امور اور دفاع پاکستان کے دائرہ کار میں ہی رہے۔ یہ اقدام قلات کو ایک خودمختار ریاست نہیں بلکہ ایک نوابی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی حد تک تھا، جیسا کہ اُس وقت برصغیر کی دیگر ریاستیں تھیں۔

تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خان آف قلات نے خود پاکستان سے تعلق مضبوط بنانے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اکتوبر 1947 میں انہوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو قلات کا قانونی مشیر بننے کی دعوت دی، جو اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ بعد ازاں 27 مارچ 1948 کو خان آف قلات نے باضابطہ طور پر الحاق پاکستان کے تاریخی دستاویز پر دستخط کیے، جسے مکمل رضامندی اور قومی مفاد میں کیا گیا اقدام قرار دیا۔ ان کے اس فیصلے کی تصدیق خود ان کے بیان سے بھی ہوتی ہے جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ الحاق رضاکارانہ طور پر کیا گیا۔

بی ایس این کے علیحدگی پسند دعوے نہ صرف تاریخی سچائی کے خلاف ہیں بلکہ تضادات سے بھرے ہوئے بھی ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ 11 اگست کو آزادی حاصل کی گئی، تو دوسری طرف وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ الحاق زبردستی کیا گیا۔ اگر واقعی قلات ایک آزاد ریاست تھی، تو اسے بین الاقوامی سطح پر کسی ملک یا اقوامِ متحدہ نے کیوں تسلیم نہیں کیا؟ اس ریاست کے پاس نہ تو کوئی قومی شناختی کارڈ، نہ پاسپورٹ، نہ افواج اور نہ ہی کوئی سفارتی شناخت موجود تھی۔ یہ تمام سوالات اس دعوے کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ 1948 میں خان کے الحاق کے بعد ان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم کی طرف سے کی جانے والی مسلح بغاوت درحقیقت خان کے فیصلے کے خلاف تھی، نہ کہ ریاستِ پاکستان کے خلاف۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات کو علیحدگی پسند پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرنا سراسر گمراہ کن عمل ہے۔

بی ایس این کی جانب سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے خطاب کو بھی مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اس خطاب کو پاکستان کے “حقیقی یومِ آزادی” کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ دن قائداعظم کی بطور گورنر جنرل تقرری اور آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کا دن تھا، آزادی کا دن ہرگز نہیں۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں مساوات، قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی، نہ کہ سیکولرازم کے مستقل نفاذ یا اسلامی شناخت کے انکار کی۔

برطانوی پارلیمنٹ کے “ہندوستانی آزادی ایکٹ 1947” کی رو سے پاکستان کا سرکاری دن 14 اگست ہی تسلیم کیا گیا، اور یہ دن نہ صرف قانونی بلکہ روحانی اہمیت بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق 27 رمضان المبارک کو واقع ہوا تھا، جو شبِ قدر کی رات ہے۔ یہ دن پاکستان کے اسلامی نظریہ کو تقویت دیتا ہے۔

غوث بخش بزنجو جیسے رہنما کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بی ایس این کے پروپیگنڈا کا ایک اور حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بزنجو نے کبھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے اندر آئینی خودمختاری کی بات کی۔ ان کا کردار پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثبت رہا—1973 کے آئین کے معماروں میں شامل ہونا، گورنر بلوچستان بننا، اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے نظام پر یقین رکھتے تھے۔
بی ایس این اور اس جیسے دیگر گروہوں کا اصل ایجنڈا بلوچ نوجوانوں کو ریاست سے بدظن کرنا اور دہشت گردی، اغواء برائے تاوان اور تعلیمی اداروں پر حملوں جیسی کارروائیوں کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ یہ گروہ بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی پراکسی وار کا حصہ ہیں، جنہیں ہندوستان، بعض این جی اوز اور مغربی لابیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کا مقصد صرف بلوچ قوم کو گمراہ کرنا اور ترقی کے سفر کو روکنا ہے۔
اس کے برعکس، بلوچستان میں ترقی کا سفر جاری ہے۔ انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت، اور کھیلوں کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستِ پاکستان بلوچ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے۔ نوجوانوں کی قومی سطح پر بڑھتی ہوئی شمولیت، مقابلوں میں کارکردگی اور حب الوطنی کے رجحانات ان تمام جھوٹے دعووں کو مسترد کرتے ہیں جو بی ایس این اور اس جیسے گروہ پیش کرتے ہیں۔

لہٰذا 11 اگست کو ایک “جعلی یومِ آزادی” کے طور پر پیش کرنا تاریخی حقائق، قانونی حیثیت اور زمینی سچائیوں کے منافی ہے۔ بلوچ قوم نے اپنے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ الحاق میں کیا، اور آج بھی وہ اس ریاست کا حصہ ہیں—نہ صرف شناخت کے اعتبار سے بلکہ عملی شرکت اور ترقی کے میدان میں بھی۔ پاکستان اور بلوچستان کا رشتہ تاریخ، قربانی، نظریے اور قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے، اور کوئی پروپیگنڈا اس رشتے کو کمزور نہیں کر سکتا۔

Facebook Comments Box