نظام لنگڑے پر اعتماد مت کرنا

تحریر۔نظام الدین

پاک بھارت چار روزہ جنگ کے بعد جب میں نے میڈیا کوریج کا جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا دونوں فریقوں نے میڈیا کے ذریعے مصنوعی زہانت کا خوب استعمال کیا، مگر پاکستان کے میں اسٹریم میڈیا کے خلاف ویسے ثبوت نہیں ملے جیسے بھارتی میڈیا کے خلاف ملتے ہیں ، پاکستانی میڈیا کے پاس ایسی بے شمار خبریں تھیں جن پر بھارتی میڈیا کی طرح طوفان کھڑا کیا جاسکتا تھا، آگر ایسی خبریں بھارتی میڈیا کے پاس ہوتیں تو وہ انہیں عالمی سطح پر دھنا دھن چلاتا رہتا،
تاہم پاکستانی میڈیا نے مصنوعی زہانت کی زہانت سے جھوٹا پروپیگینڈا چلانے سے گریز کیا،،
مگر ایک خبر نے میرے زخموں کو زندہ کردیا؟؟
وہ خبر اے آر وائی نیوز چینل پر ایم کیو ایم کے ایک مفرور دہشت گرد جاوید لنگڑے کی دہلی میں وفات سے متعلق تھی یہ خبر بھی مجھے مصنوعی زہانت کا کارنامہ لگ رہی تھی ، کیونکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار جاوید لنگڑے کی گرفتاری سے متعلق خبریں ٹی وی چینل پر دیکھ چکا تھا؟
اگر جاوید لنگڑے کی گرفتاری سے متعلق وہ خبریں درست تھیں تو اب کون سا جاوید لنگڑا دہلی میں وفات پا گیا ؟؟؟
کیا کراچی کا وہ جاوید لنگڑا جو سنہ نوے کی دہائی میں قتل ؤ غارت گری کے الزامات کے تحت پاکستانی حکومت کو مطلوب تھا ؟ جس کے سر کی قیمت سرکار نے رکھی تھی ؟ جس کی حوالگی کا مطالبہ بے نظیر بھٹو اپنے دورے اقتدار میں بھارت سے کر چکی تھیں ؟ اور متعدد بار پاکستانی ادارے بھی اس کی حوالگی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ؟
جبک بھارتی حکومت ہر مرتبہ جاوید لنگڑے سے متعلق انکار کرتی رہی ؟ مگر اب وہ جاوید لنگڑا دہلی میں وفات پا گیا ،
مگر پاکستانی میڈیا اور سرکار نے بھارتی سرکار سے کوئی سوال نہیں کیا کہ ایک پاکستان کو مطلوب مفرور مجرم دہلی میں اتنے برسوں سے کیا کررہا تھا ؟ کس نے رکھا ہوا تھا؟ بھارت اس کی حوالگی سے کیوں انکار کرتا رہا ؟ تاہم پاکستان میں اس کی صرف وفات کی خبر چلائی گئی، پاکستانی ریاست نے اس خبر کو آوور پلے کرنے کی کوئی ہدایت جاری کیوں نہیں کی؟؟؟ شاہد اس لیے کہ پاکستانی اداروں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ک ریاست کو مطلوب مجرم پاکستانی سرحد عبور کرکے بھارت کیسے پہنچ گیا ؟؟
راقم ” خود قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کا پڑوسی لائینز ایریا کا رہائشی ہے ، جہاں کی گنجان تنگ گلیوں میں جاوید لنگڑے نے بھی اپنا بچپن گزارا تھا،، زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ غربت ایک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی خوداری ، عزت نفس ، اور خوابوں کو بے دردی سے روند دیتی ہے ، اسی غربت تنگدستی کے عالم میں جاوید لنگڑے نے لائینز ایریا کے سیلن زدہ گھر کی تنگ گلی سے مہاجروں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے مہاجر قومی موومنٹ میں “فاروق ستار” کی معرفت شمولیت اختیار کی اور مہاجروں کے حقوق کے نام پر بلدیہ شرقی کی مخصوص نشست ہر کونسلر منتخب ہو کر اسٹیبلشمنٹ ، قانون اور مالیات کا چیرمین مقرر ہوگیا ، تو اس کو اپنی غربت مفلسی دور کرنے کا موقع ہاتھ آگیا مگر پاکستان کے جغرافیہ میں رہ کر دولت حاصل کرنے کے بجائے اس نے بھارت کی ایجنسی را” کے ایک ایجنٹ حاجی عثمان سے روابط قائم کرلئے ، حاجی عثمان کا دہلی میں الفا پرنٹنگ پریس تھا جہاں دنیا بھر کے جعلی کاغذات اور کرنسی چھپتی تھی یہاں پاکستان کی جعلی کرنسی بھی چھپتی تھی اس کرنسی کو جاوید لنگڑے تک پہچانے کا کام بھی حاجی عثمان را” کے کچھ ایجنٹوں کی مدد سے کرتا تھا جیسے بڑی مہارت سے جاوید لنگڑا اپنے مخصوص ساتھیوں کی مدد سے پاکستان میں پھیلا دیتا ، حاجی عثمان اکثر پاکستان پہنچ کر جاوید لنگڑے کا مہمان ہوتا اور اس کی سرکاری گاڑی اور دفتر استعمال کرتا ” تب” اس پر میں نے فراہی ڈے میگزین میں ایک سوال اٹھایا تھا کہ زیڈ ایم سی شرقی کی سرکاری گاڈی اور دفتر کون لوگ استعمال کرتے ہیں؟ اور کس حیثیت میں کرتے ہیں ؟ ان کا تعلق کہاں سے ہے ؟ اور ایک غریب علاقے کا رہائشی جاوید لنگڑا نائن زیرو پر سونے کی تلوار کہاں سے پیشہ حاصل کرکے تحفہ میں دے رہا ہے؟
” کے کے ایف” کو جمشید کوارٹرز میں شاندار محل نما گھر تحفہ میں کہاں سے دولت حاصل کرکے پیش کیا گیا ؟
جدید اسلحہ کس رقم سے حاصل کیا گیا ؟
اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد میرے کئی دوست احباب جو جاوید لنگڑے کی فطرت سے آگاہ تھے مجھ سے کہا
“نظام لنگڑے پر اعتماد مت کرنا”
اور پھر دوستوں کی وہ بات اس وقت پوری ہوگئی جب اسے ایم کیو ایم کی قیادت نے پاؤر فل سیکٹر انچارج بنایا ، تو اس نے مجھے رات دو بجے گھر سے اٹھوا کر دو دن تک اپنے ٹارچل سیل میں رکھا ، یہ وہ زمانہ تھا جب موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام نہاد قائدین فاروق ستار” اس وقت کراچی کے میئر ، اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اے پی ایم ایس او کے چیئرمین ہوا کرتے تھے , میں اپنے اوپر تشدد ہونے کے بعد ظلم کی داستان اور بھارت سے انے والے ایجنٹ حاجی عثمان سے متعلق ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو جا کر بتا چکا تھا جہاں ایم کیو ایم کے چیرمین عظیم احمد طارق نے اس کا اقرار بھی کیا تھا کہ اس قسم کے کچھ عناصر ایم کیو ایم کی صفحوں میں شامل ہوگئے ہیں ان کی صفائی کا جلد انتظام کیا جائے گا مگر پھر 19 جون آگیا اور پھر مہاجروں کی بقاء کی جنگ لڑنے والے آپس میں جنگ لڑنے لگے ،
اگر آج بھی تحقیقاتی ادارے فاروق ستار” سے جاوید لنگڑے سے تعلق کی تحقیق کریں تو بہت سے ملک دشمنی کے ثبوت مل سکتے ہیں اور آگر خالد مقبول صدیقی کے بھارتی دورے سے متعلق تحقیق کر لی جائے تو موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کی صفحوں میں جاوید لنگڑے کے سہولت کاروں کی پوری فہرست مل سکتی ہے ، مگر شاید تحقیقاتی اداروں کو ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے ،،

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *