آزادی کی پھر بھی قدر کیجے

تحریر- محمد ذیشان بٹ

الحمدللہ! ہمارا پیارا ملک پاکستان 75 برس سے زیادہ کا سفر طے کر چکا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو لاکھوں جانوں کی قربانی، بے شمار آنسوؤں، لہو اور دعاؤں کے بعد وجود میں آیا۔ مگر افسوس کہ آج بھی ہمارے بنیادی مسائل تقریباً وہی ہیں جو آغاز میں تھے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، بجلی و گیس کی کمی نے زندگی اجیرن کر دی ہے، اور نوجوان اپنی صلاحیتیں لے کر بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔ یہ سب حقائق اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم آزادی کی اہمیت کو بھول جائیں یا اس کی قدر کم کر دیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ آزادی آسانی سے نہیں ملی۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ایسی قربانیاں دی ہیں جن کا تصور بھی آج کے دور میں مشکل ہے۔ ہجرت کے وقت ہزاروں خاندان اپنا سب کچھ چھوڑ کر محض اس امید پر پاکستان آئے کہ یہ وہ زمین ہوگی جہاں وہ اپنے دین پر آزادی سے عمل کر سکیں گے۔ لاہور، دہلی، امرتسر، لدھیانہ اور دیگر شہروں سے قافلے نکلے جن پر راستے میں حملے ہوئے، عورتوں کو بے عزت کیا گیا، بچوں کو شہید کیا گیا، مگر لوگوں نے ہار نہیں مانی۔

پنجاب کے ایک گاؤں کی تاریخ میں درج ہے کہ وہاں کی بیٹیوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے اجتماعی طور پر کنویں میں چھلانگیں لگا دیں۔ بعض کنویں خون اور لاشوں سے بھر گئے۔ گورداسپور سے آنے والے قافلے پر حملہ ہوا تو بزرگ مردوں نے نوجوانوں کو بھاگنے کا کہا اور خود دشمن کے سامنے ڈٹ گئے تاکہ قافلہ محفوظ نکل جائے۔ کئی مائیں اپنے بچوں کو گود میں لیے شہید ہو گئیں، مگر پاکستان پہنچنے کی خواہش ان کے چہروں پر لکھی رہی۔

یہ قربانیاں محض زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں تھیں، بلکہ ایک نظریے کے لیے تھیں۔ “لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ” کے نام پر بننے والے ملک میں مسلمان اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں، یہی خواب تھا۔

آج ہم پاکستان میں جتنی بھی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں، ایک لمحے کو ذرا اُن ملکوں کی حالت دیکھیں جہاں آزادی نہیں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں مسلمان اپنی شناخت بچانے کے لیے ترس رہے ہیں۔ مشہور شاعر جاوید اختر اور سیاستدان اسد الدین اویسی کو محض اس لیے پاکستان کے خلاف بیان دینا پڑتا ہے کہ وہاں رہنا آسان ہو جائے، ورنہ جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ کشمیر میں بہترین سڑکیں، تعلیمی ادارے، اور انٹرنیٹ ہونے کے باوجود لوگ آزاد نہیں، اپنے دین کی بات کھل کر نہیں کر سکتے۔ فلسطین میں معصوم بچے اور عورتیں روزانہ شہید ہو رہی ہیں، اور اپنی زمین پر بھی قیدی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا — ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان کی قدر خودبخود واضح ہو جاتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں آج بھی ہم کھل کر اذان دے سکتے ہیں، قرآن پڑھ سکتے ہیں، جمعے کا خطبہ سن سکتے ہیں، اور دینی تعلیم عام کر سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو یہ حق ہے کہ اپنی بات کہہ سکیں، اختلافِ رائے رکھ سکیں، اور اپنی مرضی کا لباس پہن سکیں۔ یہ سب آزاد فضاؤں کا تحفہ ہے، اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

ہاں، مسائل ہیں، اور بہت ہیں۔ لیکن یہ گھر ہمارا ہے۔ گھر میں چاہے بھائی بہنوں کے بیچ جھگڑے ہوں، کوئی گھر چھوڑ کر اجنبی نہیں بن جاتا۔ بلکہ سمجھدار لوگ گھر کی اصلاح کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان بھی ہمارا گھر ہے، اور یہاں کی بہتری کے لیے ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت سے شکوے اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود اس ملک کے لیے کیا کر رہا ہے؟

ہماری نوجوان نسل کے پاس سب سے بڑی طاقت تعلیم ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر بن رہے ہیں تو صرف اپنے کیریئر کے لیے نہیں، بلکہ اس نیت سے بنیں کہ آپ اپنی قوم کو صحت کی بہتر سہولت فراہم کر سکیں۔ اگر انجینئر بن رہے ہیں تو پاکستان کے انفراسٹرکچر، صنعت و ٹیکنالوجی میں ترقی لانے کے لیے کام کریں۔ اگر استاد ہیں تو اپنے شاگردوں کو نہ صرف علم بلکہ شعور دیں تاکہ وہ جہالت کے اندھیروں سے نکل سکیں۔ اگر امام مسجد ہیں تو اپنی تقریروں میں اتحاد، اخلاق اور محبت کا پیغام دیں، تاکہ یہ معاشرہ نفرت سے نکل کر بھائی چارے کی طرف آ سکے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک جغرافیائی ملک نہیں تھا، بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ اگر آج ہم محنت، ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے حصے کا کردار ادا کریں تو یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ آزادی کا اصل حق تب ادا ہوگا جب ہم اس ملک کو اپنے بزرگوں کے خوابوں کا پاکستان بنا سکیں — ایک ایسا پاکستان جو دنیا میں عزت و وقار کی مثال ہو۔

لہٰذا، 14 اگست صرف جشن منانے کا دن نہیں، بلکہ عہد کرنے کا دن ہے۔ آئیں یہ عہد کریں کہ ہم اپنی صلاحیتیں، اپنی محنت، اپنا وقت، اور اپنا جذبہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کریں گے۔ یہ ملک ہمارا ہے، اور اس کی عزت و حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Facebook Comments Box