خون میں مٹھاس دوست یا دشمن ؟

تحریر۔نظام الدین

2016 کے شروع میں گھریلو مسئلہ کی وجہ سے میں زہنی دباؤ یآ ڈپریشن کا شکار ہو گیا مئی کا گرم مہینہ آنے تک ڈپریشن کی شدت میں زیادہ اِضافہ ہوگیا اور گرمی کی وجہ سے پیاس زیادہ لگتی تو پانی کی جگہ ٹھنڈے میٹھے مشروبات کا استعمال زیادہ کرنا شروع کر دیا پھر بار بار پیشاب آنا شروع ہوا تو میں سمجھا زیادہ مشروبات کے استعمال سے پیشاب زیادہ آرہا ہے، جون کے مہینے تک اس کیفیت میں اور شدت پیدا ہوگئی ٹانگوں میں درد کے ساتھ پاؤں کے تلوؤں میں جلن اور چبن شروع ہوگئی اس حالت میں ڈاکٹر کو دیکھایا تو تمام ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بتایا آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار نارمل سطح سے زیادہ ہوگئی ہے یعنی” میں ذیابیطس یا بلڈ شوگر کا مریض ہوچکا ہوں ڈاکٹر نے کچھ دوائیں تجویز کردیں اور کہا اب آپ شوگر سے دوستی کرلیں میں ڈاکٹر سے بولا جناب جو مٹھاس میرے جسم کی دشمن ہے میں اس سے دوستی کیسے کرسکتا ہوں دشمن سے دشمنی کرکے نمٹا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب بولے نہیں کچھ انسان کے دشمن ایسے ہوتے ہیں جس سے دوستی کرنا مجبوری بن جاتی ہے ،
کچھ عرصے بعد میں اس زہنی دباؤ سے آزاد ہوا اور پھر ٹیسٹ کریا تو میرے خون میں گلوکوز کی مقدار نارمل سطح پر آگئی تھی ،
دراصل کچھ لوگوں کے خون میں مٹھاس زیادہ ہونے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب زہنی دباؤ یا ڈیپریشن جسم میں ہارمونز کار ٹیسول وغیرہ بڑھا دیتا ہے یعنی زیادہ ٹینشن خون میں مٹھاس کے لیول کو متاثر کرتی ہے اور آگر بروقت علاج کرا لیا جائے اور زہنی دباؤ کو کنٹرول کرلیا جائے تو خون میں مٹھاس کا لیول بحال ہوسکتا ہے ،
ہمارے ملک پاکستان میں خون میں مٹھاس کے بڑھتے واقعات پر سائنسی تحقیق بہت کم ہوتی ہے اور بعض ڈاکٹر حضرات کے پاس کوئی خونی مٹھاس کا مریض چلا جائے تو اسے خوفزدہ کرنے کے ساتھ اس کے کھانے پینے پر اس طرح پابندی لگا دیتے ہیں کہ وہ مریض اور زیادہ زہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ افراد خون کی مٹھاس کے مریض ہوچکے ہیں- اور غالباً کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو اس کا شکار ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے خون کے مٹھاس کا ٹیسٹ نہیں کروایا- اس لیے خونی مٹھاس کے مریضوں کی اصل تعداد غالباً ساڑھے تین کروڑ سے کہیں زیادہ ہے۔
جبک کچھ لوگ خون کی مٹھاس کا شکار عموما اس وقت ہوتے ہیں جب دماغ میں زیادہ دباؤ یآ زیادہ دنوں تک پریشانی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ کھانے پینے کی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے لبلبہ اس قدر انسولین نہیں بنا پاتا جس قدر انسولین ان کے خلیوں کو درکار ہوتی ہے – نظام انہضام سے جو شوگر خون میں شامل ہوتی ہے، انسولین کی کمی کی وجہ سے اس شوگر کا بیشتر حصہ خون میں ہی رہ جاتا ہے۔ یہ اضافی شوگر جسم کے کئی اعضاء کو نقصان پہنچاتی ہے
یوں تو خون میں شوگر کی زیادتی کئی اہم اعضاء کو نقصان پہنچاتی ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان اعصاب کو پہنچتا ہے۔ خون میں شوگر کی ضروت سے زیادہ مقدار اعصاب کی حفاظتی تہہ یعنی مایلون شیتھ کو آہستہ آہستہ تباہ کر دیتی ہے۔ مایلون شیتھ دراصل چکنائی کا ایک غلاف ہوتا ہے جو اعصاب کے گرد لپٹا ہوتا ہے اور ان کے سگنلز کو تیز اور درست طریقے سے آگے پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ جب شوگر کی وجہ سے اس غلاف کو نقصان پہنچتا ہے تو اعصاب سے گزرنے والا برقی سگنل کمزور اور سست رفتار ہو جاتا ہے-
ہمارے جسم کے سب سے لمبے اعصاب (نرووز) وہ ہیں جو پاؤں کی انگلیوں سے سگنل دماغ تک پہنچاتے ہیں اور دماغ سے احکامات پاؤں کے مسلز تک پہنچاتے ہیں- چونکہ دماغ سے پاؤں کی انگلیوں کا فاصلہ باقی اعضاء کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اس لیے پاؤں سے دماغ تک جانے والی نرووز پر مایلون شیتھ بھی باقی تمام نرووز کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شوگر کے مریضوں میں اعصاب پر مائلون شیتھ ختم ہونے لگتی ہے تو اس کے آثار سب سے پہلے مریض کے پاؤں کی انگلیوں میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
مایلون شیتھ کے ختم ہو جانے سے مریض کے پاؤں کے سگنل دماغ تک درست حالت میں نہیں پہنچتے بلکہ بے ہنگم ہو جاتے ہیں۔ دماغ ان بے ہنگم سگنلز سے غلط نتیجہ اخذ کرتا ہے اور انگلیوں میں درد، سن ہونا یا سوئیاں چبھنے جیسا احساس پیدا کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ شوگر کی پہلی نشانی یعنی پاؤں میں جلن محسوس ہونا ہے۔ اگر شوگر کو بروقت کنٹرول نہ کیا جائے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان نرووز میں برقی سگنل کی ترسیل ختم ہو جاتی ہے- اس صورت میں مریض کو پاؤں کی انگلیوں پر معمولی زخم یا کٹ لگنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ انگلی پر کانٹا چبھ جائے یا جوتے سے رگڑ لگے تو وہ معمولی زخم بھی ٹھیک نہیں ہوتے بلکہ مسلسل بڑھتے رہتے ہیں کیونکہ درد کا احساس ختم ہو جانے کی وجہ سے مریض انہیں نظرانداز کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ شوگر کی وجہ سے جسم میں خون کی باریک رگیں بھی خراب ہونے لگتی ہیں اس لیے زخم تک تازہ خون بھی نہیں پہنچ پاتا اور جسم کا مدافعتی نظام زخم میں بیکٹیریا کے خلاف جنگ نہیں کر پاتا۔ یوں چھوٹے چھوٹے زخم انفیکشن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، مایلون شیتھ کو نقصان پہنچنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دماغ سے مسلز کو ملنے والے سگنلز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے پاؤں کے چھوٹے مسلز کمزور ہو جاتے ہیں اور انگلیوں کی ساخت بدلنے لگتی ہے جس سے چلنے کے دوران پاؤں کی انگلیوں پر غیر متوازن دباؤ پڑتا ہے۔ دباؤ والی جگہوں پر چھالے اور سخت جلد بنتی ہے جو اندرونی زخم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ خون کی کمی اور شوگر کی وجہ سے کمزور مدافعتی نظام ان زخموں کو بھی مندمل نہیں کر پاتا اور یہ زخم بھی بگڑنے لگتے ہیں۔ ان سب کا حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پاؤں کی انگلیوں کے ٹشو مرنے لگتے ہیں۔
گویا شوگر میں پاؤں کی انگلیوں کے خراب ہونے کا ایک بنیادی میکانزم اعصاب کی تباہی ہے جو مایلون شیتھ کو نقصان پہنچنے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ خاموش عمل آہستہ آہستہ مریض کو اس سٹیج تک لے جاتا ہے جہاں انگلیاں گلنے سڑنے لگتی ہیں اور کبھی کبھی انگلیاں کاٹنے تک نوبت آ جاتی ہے۔ اس لیے شوگر کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پاؤں کا روزانہ معائنہ کریں، جوتوں کا انتخاب محتاط انداز میں کریں اور خون میں شکر کی سطح کو قابو میں رکھیں تاکہ اعصاب اور مایلون شیتھ کو زیادہ سے زیادہ عرصہ تک محفوظ رکھا جا سکے۔
اگر آپ بلڈ شوگر کو ادھیڑ عمر تک کنٹرول میں رکھنا چاہیے ہیں پاؤں کی انگلیوں کو کوئی نقصان بھی نہ ہو اور پاؤں آخری دم تک آپ کا ساتھ دیں تو شوگر کی دوا باقاعدگی سے لین ، متوازن غذا استعمال کریں ، ورزش اور پیدل چلنے کو معمول بنائیں ، زہنی ٹینشن کم کریں ،،،
( شکریہ سائنس کی دنیا)

Facebook Comments Box