کامل مومن

ازقلم: حافظ امیر حمزہ حیدری
محبت ایک ایسا لطیف اور پاکیزہ جذبہ ہے جو انسانی فطرت کا بنیادی جزو ہے۔ یہ محبت جب عام انسانوں سے کی جاتی ہے تو اس کے اثرات دنیاوی حد تک محدود ہوتے ہیں، مگر جب یہ محبت خاتم النبیین، سیدالمرسلین، حبیبِ کبریا حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه واله وسلم سے ہو، تو اس کے اثرات صرف دنیا نہیں بلکہ آخرت تک پھیل جاتے ہیں۔
یہی وہ محبت ہے جس پر ایمان کی عمارت کھڑی ہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر تم یہ دعویٰ کرو کہ تم محبوب سے محبت کرتے ہو، مگر اس کی پیروی نہ کرو، تو تمہارا دعویٰ جھوٹا ہے۔
گویا کہ اتباع ہی اصل محبت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں محبت مصطفی کا معیار بیان کرتے ہوۓ فرمایا:
“(اے نبی !) فرما دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔”(آل عمران)
یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی واقعی اللہ و رسول صلى الله عليه واله وسلم سے محبت کرتا ہے تو اس کا اظہار اتباعِ کی صورت میں ہوگا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی محبت کیسی تھی۔ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے سوا سب سے زیادہ محبوب ہیں۔”
آپ صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:
“نہیں، جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں، تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا:
“اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔”آپ صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:
“اب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے۔”
یہ ہے سچی محبت کہ صحابی رسول اپنی جان کے مقابلے میں بھی رسول اللہ صلى الله عليه واله وسلم کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ چھوڑا تو اذان دینا چھوڑ دی۔ لوگ کہتے: اذان تو دو، وہ کہتے:
“میں کیسے اذان دوں؟ جب میں اذان میں کہتا تھا: اشھد ان محمدًا رسول اللہ تو وہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتے تھے۔ اب وہ نہیں، میں اذان کیسے دوں؟”
یہ وہ محبت ہے جو دل سے نکلتی ہے اور زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ دل سے محبت
ہم کسی سے اس وقت کرتے ہیں جب اسے جانتے ہیں۔ اگر ہم نبی صلى الله عليه واله وسلم کی زندگی، سیرت، اخلاق، صبر، معاملات اور مشن کو نہ جانیں، تو محبت کی بنیاد ہی کمزور ہو جاتی ہے۔
سیرت النبی صلى الله عليه واله وسلم کا باقاعدہ مطالعہ ہمارے دل میں محبت پیدا کرتا ہے اور ہمیں ان جیسا بننے کی تحریک دیتا ہے۔
محبت کا ایک مظہر ذکر بھی ہے۔ جو محبوب ہوتا ہے، اس کا ذکر دل سے نکلتا ہے۔ درود و سلام پڑھنا نبی صلى الله عليه واله وسلم سے محبت کا اظہار بھی ہے اور نفع بخش عمل بھی ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے
“جو شخص نبی صلى الله عليه واله وسلم پر ایک بار درود بھیجے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔”
(صحیح مسلم)
نبی صلى الله عليه واله وسلم کا ذکر، آپ کی پیروی اور محبت کا اظہار یہ دین کا لازمی حصہ ہے۔
تو یہ محبت کا تقاضا کیا ہے، کیا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم واقعی محبت رکھتے ہیں تو ہم آپ کے مشن دینِ حق کا غلبہ میں شریک ہوں۔
تبلیغ، دعوت، اصلاحِ نفس، دین سیکھنا اور سکھانا، معاشرہ کی بھلائی، برائی سے روکنا ۔ یہ سب محبت رسول کے تقاضے ہیں۔
نبی کریم صلى الله عليه واله وسلم کو اپنی امت سے بے پناہ محبت تھی، حتیٰ کہ قیامت کے دن بھی وہ یہی پکاریں گے:
“أمتی، أمتی!”
ہم اگر آپ صلى الله عليه واله وسلم سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں بھی آپ کی امت سے ہمدردی، خیر خواہی اور اخلاص رکھنا ہوگا۔
مشہور واقعہ جب طائف والوں نے پتھر مارے، جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے کہ اگر اجازت دیں تو پہاڑ ان پر گرا دوں؟
آپ صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:
نہیں، شاید ان کی نسل میں کوئی ایمان لے آئے۔
یہ ہے نبی کا دل! کیا ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے اتنے نرم دل رکھتے ہیں؟
نبی صلى الله عليه واله وسلم کی زندگی میں بے شمار مصیبتیں آئیں: شعبِ ابی طالب کا بائیکاٹ، طائف کی سنگ باری، احد میں زخمی ہونا، بیٹے کی وفات مگر آپ نے کبھی زبان سے شکایت نہیں کی۔ سچا محب وہی ہے جو ہر کام میں سنتِ رسول پر عمل کرے۔
آخر میں یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ حقیقی محبتِ مصطفی صرف دعوے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک عملی طرزِ حیات ہے۔ یہ محبت زبان سے درود، دل سے اطاعت، عمل سے اتباع، اور معاشرت میں سنت کے غلبے سے ظاہر ہوتی ہے۔
شاعر کہتا ہے:
محبت نہیں مصطفی سے جسے
نہ رحمت نہ بخشش خدا کی اسے
جو بھی اس عمل میں خطا پاۓ گا
وہ ظالم دیوانہ کدھر جاۓ گا

Facebook Comments Box