عدالت انصاف اور سماج

تحریر۔نظام الدین

دستار انصاف ظالموں کے حق میں جائے گا
یہ حالات رہے تو کون عدالتوں میں جائے گا

کراچی برگیڈ پولیس اسٹیشن 3ستمبر 2025 کو وکیل محمد شہر یار ولد محمد سلیم نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر زیر دفع 154 کے تحت درج کرائی ، اس طرح مختلف وکیلوں کی مدعیت میں اس تاریخ تک صرف برگیڈ پولیس اسٹیشن میں 6 ماہ کے دوران
15ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں ، ان درج ایف آئی آر میں علاقہ گواہان” سی سی ٹی وی فوٹو” اور بعد میں عدالتی فیصلوں” سے ثابت ہوا کہ ان وکیلوں کی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر غلط تھیں اور ان بے گناہ شہریوں سے کیس ختم کرنے کے معد میں کچھ وکیلوں نے بار گینگ بھی کی تھی، بدقسمتی سے کراچی شہر کے بعض تھانوی میں کچھ عرصے سے مبینہ طور پر چند وکلاء حضرات کے زاتی کیسز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اؤر وہ عدالتیں جہاں ملزمان کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے ان عدالتوں میں مبینہ طور پر وکلاء پر مشتمل گروہ فریق مخالف کو پولیس کی موجودگی میں مارتا پیٹتا نظر آتا ہے پولیس اور عدالتیں ان وکلاء کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں؟ بات ادھر ختم نہیں ہوتی ججز صاحبان کو بھی پریشر آئیز کیا جاتا ہے من پسند فیصلوں کے لیے ؟
“جب ہم کسی ملک یا سماج
کے ترقی یافتہ ہونے یا زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک اہم ترین پیمانہ؛ انصاف اور قانون کی حکمرانی کا بھی ہے ، قانون کی حکمرانی وہ بنیادی اصول ہے، جو ملک میں موجود تمام ، برادریوں، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لیے مساوات اور جواب دہی کا تصور فراہم کرتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے تحت قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ قانون پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سب افراد، ادارے اور جماعتیں قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ایک منصفانہ نظامِ حکومت میں کوئی ایک شخص، ادکارہ ، جماعت یا خود حکومت زیادہ اہم یا قانون سے بالا تر نہیں ہوتیں ،آج دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں، جہاں آئین ، دستور اور قانون تو موجود ہیں، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہے، وہ مقتدرہ اور طاقت ور طبقوں کے ہاتھ میں موم کی ناک ہیں۔ جس کو وہ جب جس طرف چاہتے ہیں، موڑ دیتے ہیں۔ ان ملکوں کے قوانین طاقت ور کے سامنے مکڑی کا وہ جالا ہیں، جنھیں وہ جب چاہیں‘ توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان بھی اسی قبیل کے ملکوں میں شامل ہے “جبکہ” قانون کا احترام مہذب معاشروں کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور جہاں قانون دان اس احترام کوایک دفعہ ضائح کردے تو پھر خود ان کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہوجاتا ہے ، اور پھر قانون اور سماج الگ الگ راستوں پر چلنے لگتے ہیں،، ہمارے ملک میں وکالت کے مقدس پیشے میں جو لاقانیت پیدا ہوچکی ہے اس کے لیے قرآن کریم کی سورہ مائدہ میں واضح فرمایا، اے ایمان والو! انصاف و عدل کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اسکے خلاف نا انصافی پر نہ ابھارے ، عدل و انصاف ہی اللہ کو زیادہ مقبول ہے، اللہ رب العزت نے النساء من 135میں فرمایا اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے بن جاؤ اگر چہ وہ گواہی تمہارے اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو یا تمہارے والدین یا پھر رشتہ داروں کے”مگر اس وقت بھی انصاف و صدق و عدل کا پیکر بن کرر ہنا۔ سورہ الحجرات: 6 اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو پس تم خوب اسکی تحقیق کرنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لاعلمی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو ،جبک بعض وکیل صرف اپنے پیسوں کی بنیاد پہ کیس کو جتانے کی کوشش کرتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ حق پر کون ہے؟ اور اس آیت میں فاسق کا جو ذکر ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ غیر فاسق کی تحقیق نہ کی جائے بلکہ ہر شخص کی تحقیق کی جائے کیونکہ آیت میں لفظ فاسق غالب مفہوم کی وجہ سے ہے نہ کہ قید یعنی زیادہ تر فاسق ہی جھوٹ بولتا ہے اسی لیے اسکا ذکر کیا، اسکو عربی قاعدہ میں” خرج مخرج الغالب” کہتے ہیں۔ کسی بھی وکیل کو حلال و حرام کا علم ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال ثابت کردیں، قرآن کریم نے النحل من آیہ 116 میں فرمایا تم نہ کہو کسی شے کو اپنی زبانوں سے بغیر دلیل شرعی کے یہ حلال ہے ،اور یہ حرام یہ کہ کر تم اللہ تعالیٰ پہ جھوٹ باندھتے ہو؟.یہاں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم ان چیزوں کا ارتکاب نہ کرنا جنکا ارتکاب یہود نے کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو چھوٹے چھوٹے حیلوں سے حلال کیا۔ ابطال الحیل لابن بطہ حدیث نمبر:56 ، ہمارے ہاں وکالت میں باطل کو حق اور حق کو باطل ثابت کیا جاتا ہے جھوٹے دلائل سے جو کہ یہود کا فعل ہے، امراء و ظالمین کی دولت کی وجہ سے وکیل و جج یہ کوشش کرتا ہے کہ اسکو بیل مل جائے اسکے حق میں فیصلہ صادر ہو جائے لہذا وکیل جھوٹے گواہ و دلائل جمع کرتا ہے اسی لیے قرآن کریم نے
الهود:113 میں فرمایا ان لوگوں کی طرف مت جھکنا جنہوں نے ظلم کیا اگر تم نے ایسا کیا تو ظالم کا ساتھ دینے کی وجہ سے پس وہ آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوگا پھر تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔
لہذا وکلاء و ججز کو اپنی دنیا و آخرت کی فکر بھی کرنی چاہیے کیونکہ یہ آگ أن کو دنیا میں بھی کسی بھی صورت میں اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور اس پر زمانہ گواہ ہے
سورہ الحجرات:10 بے شک إیمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔اس آیت میں لفظ” اتقوا الله اللہ سے ڈرو” کا صلح کے ساتھ تعلق ہی یہ ہے کہ بہت سے وکیل کسی دولت مند کا ساتھ دینے کے لیے غریب کو ڈرا دھمکاکر صلح کرواتے ہیں تو انہیں کے بارے میں قرآن کریم فرمارہا ہے کہ ایسی ظالمانہ صلح کرواتے ہوئے اللہ سے ڈرنا وہ تمہاری ان ظالمانہ حرکتوں سے واقف ہے بلکہ یہ صلح نہیں یہ ارتکاب حرام ہے جو یہودیوں کا فعل تھا جسکا بیان سابقہ شرط کے تحت ہوچکا ہے۔
وکیل کو ہر وقت کوشش کرنی چاہیے کہ وہ حق کا ساتھ دے ، مظلوم کو اسکا حق دلوائے یہ ہی وجہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا،
بے شک جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسکا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان لوگوں کو بطور سزا اندھا کردے اس ظالم کے ظلم پر خاموش رہنے کی وجہ سے.،
سنن ترمذی من حدیث 3057 ،
آج تو وکلاء ایسے ہیں جو ظلم کو کیا روکیں گے خود عدالتوں اور۔تھانوں میں حیوانیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں کبھی سر عام گولیاں چلا کر خوف و ہراس کو پھیلا تے ہیں اور اکثر مادر وطن کے محافظوں کے خلاف بے بنیاد نعرے بازی کرتے ہیں ، قرآن کریم کی آیت مبارکہ میں جو وعید آئی ہے اسکا ذکر الأحزاب:58 میں کچھ اس طرح ہے ، اور جو لوگ مؤمن مرد مؤمن عورتوں کو ان باتوں کے سبب تکلیف دیتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا تو پس انہوں نے بہتان باندھا اور واضح گناہ کیا۔
ہماری عدالتوں میں کسی لڑکی کی عزت کو کس طرح ایک وکیل سنائی کے دوران اچھالتا ہے تو ایسے وکیل قرآن کی اس وعید کو اپنے سامنے رکھیں اور اللہ کے حضور سچی توبہ کریں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا،، مؤمن طعن و لعنت اور بے حیائی پر مبنی کلام کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ اچھا کلام کرتا ہے،مسند إمام احمد حدیث نمبر: 3839،،
لہذا ہر وکیل و جج کو اللہ کے حضور توبہ کرنی چاہیے جس نے بھی ان شروط پہ عمل نہیں کیا۔ نہیں تو اللہ رب العزت کا یہ اعلان یاد رکھنا السجدة:من 22
بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔،۔
اس لیے حکمرانوں اور عدالتوں کو تعزیرات پاکستان کی روح کے مطابق شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور احترام کرنا چاہیے ہر شہری کو اس وکیل کے خلاف تھانے میں فرسٹ انفارمیشن درج کرانے کا حق حاصل ہونا چاہیے جس وکیل نے اپنے پیشے کی حدودِ پار کرکے شہری پر تشدد کیا ہو یا جھوٹا کیس بنوایا ہو اور جس کیس میں وکیل زاتی طور پر ملوث ہو یا فریق ہو ، اور مخالف پارٹی کو خوف ہو کہ اس کے اہل ؤ عیال کو عام عدالت میں تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو وہ یا پولیس ایسی صورت حال میں کیس جیل کمپاونڈ میں چلانے کی درخواست متعلقہ عدالت میں پیش کرسکے ،

Facebook Comments Box