جنات انسان سے پہلے زمین پر تھے،ابلیس بھی ایک زمینی جن ہی تھا جو کثرتِ عبادت سے صعودکرکے فرشتوں میں جا پہنچا، اللہ نے قرانِ پاک میں جنات کے وجود اوران کا انسانوں سے زیادہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے،نبی کریم ﷺ کے پاس جنات کے وفود کا اسلام قبول کرنے کے لیے آنے کا واقعہ بھی قران میں موجود ہے، اورجابجا ذکر کے علاوہ ایک پوری سورۃ جن قران پاک میں موجود ہے، کسی مسلمان کا ان کے وجود سے انکار کرنا احکامِ قرانی سے انکار ہے۔ ہمارے علاقہ اسلام گڑھ میں ایک جگہ ہے جسے پرانے زمانے سے لوگ ”قمبلی کا نالہ“ کہتے تھے،یہ ایک بستی سے دور مقام تھا، البتہ اس پرسے راستہ گزرتا تھا، جو مختلف گاوں کو آپس میں ملاتا تھا، یہ راستہ اکالگڑھ (اسلام گڑھ) کو چک ہریام، اور اسی طرح دوسرے گاوں جو اب زیرِ آب ہیں،ان سے ہوتا ہوا پرانامیرپور شہر تک جاتا تھا، سوسال پہلے اس ویران گزرگاہ سے لوگ دن رات گزرتے تھے،اوروہ اکثر رات کو اس ویران جگہ سے تنہا نہ گزرتے کہ بقول ان کے یہاں جنات ہیں، اوربعض لوگوں کو رات کووہاں کوئی چیزیں دکھائی بھی دیتیں تھیں،آگ کی چنگاریاں یا کوئی غیرمانوس جانور جو تھوڑی دور دکھنے کے بعد غائب ہوجاتا، اس زمانے میں ایک باباجوپیشہ کے لحاظ سے درزی تھے،ان کی ”سیپ“ ہمارے گاوں چک ہریام میں تھی،پرانے زمانے میں لوگ مختلف پیشوں کو اپنائے ہوتے تھے،کچھ لوگ زمینداری کرتے تھے، کچھ کپڑابنانے کا کام، کچھ،جوتے بنانے کا کام ، کچھ مٹی کے برتن بناتے، کچھ لکڑی کا کام کرتے،کچھ لوہے کا کام کرتے، اسی طرح ہر ہنر خاندانی طور پررائج تھا،۔ ہندووانہ ذات پات کے قوانین کی وجہ سے یہ ہنرمند لوگ زمین کے مالک نہیں بن سکتے تھے، زمین کی ملکیت صرف زمیندار پیشہ اختیار کرنے والے لوگوں کوہی دی جاتی تھی،ہمارے علاقے کے ایک مالدار حجام نے زمینیں خریدنا شروع کیں تو اس علاقے کے زمینداروں نے مہاراجہ کشمیرسے کہاکہ اگران لوگوں کو زمین ملکیت دی گئی تو یہ سب راجاوں اورجاٹوں سے زمین خرید لیں گے لہذاانہیں زمین کی ملکیت نہ دی جائے، تو کشمیرمیں غیرزراعت پیشہ لوگوں کو ملکیت کے بجائے کاشتکار، غیرموروثی قرار دیا گیا،جس سے تمام غیرزراعت پیشہ لوگ ملکیت سے ہاتھ دھوبیٹھے، اب یہ ہنرمند اور انسانی ضروریات کے پیشوں کے مالک خاندانی طورپر”کمی“ کہلانے لگے،اوربے ہنر لوگ چوہدری اورراجے کہلاتے، اوران کو زمینوں کی ملکیت ہی نہیں بلکہ جاگیریں بھی الاٹ ہوتیں، ان ہنرمندلوگوں کو چوہدری یا راجے اپنی ضروریات کے مطابق اپنے اپنے علاقوں میں رہائشی زمین دے کر مکان بنانے کی اجازت دیتے، اوران سے اپنے کام لیتے، اس طرح یہ پیشے موروثیت بن گئے اورپھران کے نام پرقومیں بن گئیں،درزی، موچی، جولاہے، کمہار، ترکھان، لوہار، لالاری،سنار اورپتا نہیں کیا کیا نام ہیں،انہیں ہنر مندوں کی اولاد نسل درنسل اپنے ہنرسے رزق حاصل کرتے، اورپھران زمینداروں نے ان لوگوں کو فصل بہ فصل اپنے کام کی اجرت کا قانون بنالیا،اب ان لوگوں کو زمینداروں کے کپڑے بننے، سینے، برتن بنانے، زمینداری کے اوزاربنانے،جوتے بنانے والوں کو کام کی اجرت فصل کی کٹائی پرحسبِ ضرورت اناج ملتا تھا، اسے پنجابی میں ”سیپ“کہتے تھے،کہ یہ لوگ بوجودیکہ ہنرمندہیں لیکن وہ رزق کے لیے زمنینداروں کے احسانمند رہیں،اورزمیندار احسانمندہونے کے بجائے ان داتا کہلائیں،یہ ذات پات کا تصور آج تک بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے، اوریہی برائی ہے جس کے خلاف اسلام نے اپنا علم بلندکیا، اور آج تک پوری دنیا میں انسانی مساوات کا علمبردار صرف اسلام ہی کو گنا جاتا ہے، اللہ اہلِ اسلام کو اس پر عمل کرنے اورقائم رہنے کی توفیق دے آمین۔لہذاوہ بابا”سیپیوں“کے ہاں کپڑے سینے آتے جاتے رہتے تھے، اب فوت ہوے انہیں تقریبا چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، بابے کا نام عرف عام ”بابا عالم“ تھا،میرے خاندان سے ان کے تعلقات تھے،بنا بریں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک روزمیں دن کے وقت”قمبلی والے نالے“ پرسے جارہا تھا،تومجھے راستے میں ایک بندھا ہوا رومال پڑاملا، اس زمانے میں لوگ اپنے روپے پیسے وغیرہ اسی طرح سے باندھ کر پاس رکھتے تھے،تومیں نے اس رومال کواٹھایااورکھولا، تواس میں سے دوچھوہارے،ایک انگوٹھی نکلی،میں نے چھوہارے کھالیے،اورانگوٹھی پہن لی،رومال اپنے پاس رکھ لیا، بس اس کے بعد مجھے پہلے بخارچڑھا، اورمیرا دماغی توازن خراب ہوگیا اورمیں پاگل ہوگیا،پھرمجھے نہیں پتا کہ میں کیا کرتا رہا، لوگ بتاتے ہیں کہ تین مہینے، اسی طرح پاگل ہی رہا گھر والوں نے علاج معالجے کے بعد تعویذ جنات والوں کے پاس لے جانا شروع کیا تو ایک عامل نے ان سے کہا اسے چھیڑونہ ،یہ بیمارہے اور نہ پاگل یہ تھوڑے عرصے میں خود بخود ٹھیک ہوجائے گا، اورپھر آہستہ آہستہ میں ٹھیک ہوتا گیا، اسطرح ایک جن سے میری دوستی ہوئی،اوروہ اس”قمبلی والے نالے“ کے جنات کا بادشاہ تھا، اب بابا عالم روزبروز خوشحال اور مالدار ہوتا جارہا تھا، جب بندے کے پا س مال آجاتا ہے تو اس کے دوست یار بھی بہت بن جاتے ہیں،باباعالم ایک حسین وجمیل آدمی تھے، جن نے بھی اسی لیے ان سے دوستی کی تھی، اورچونکہ جن کی اپنی خواہش پر بابے سے دوستی ہوئی تھی، لہذاوہ بابے کی ہربات مانتا تھا، بابے نے کہا کہ میں نے اس سے کہا کہ تو مجھے اپناعلاقہ دکھا تو جس کا بادشاہ ہے تو اس نے مجھے رات کو اس نالے میں بلایا میں گیا تو میں نے دیکھا کہ یہ نالہ نہیں بلکہ ایک سجا سجایا شہرہے، لوگ اس میں رہ رہے ہیں، اورپھر ان سب لوگوں سے میرا تعارف کرایا کہ یہ میرادوست ہے، بابے نے اپنے دوستوں کو بتایا تو ایک دو دوستوں نے اصرار کیا کہ ہم کو بھی دکھاو، توایک رات بابا جی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دوست جن سے اجازت لی اوراپنے ساتھیوں کو لے کرگیا لیکن میں نے انہیں منع کردیا تھا کہ وہاں کسی قسم کے سوال جواب نہ کرنا،توان دوستوں نے بھی اس ”قمبلی والے نالے“میں ایک خوبصورت شہر دیکھا، لوگوں کی چہل پہل دیکھی اوروہ سکتے میں پڑگئے، لیکن انہوں نے مہمانی کھائی اور بخیر واپس آگئے، اور اس کے بعد وہ اکثر نالے پرسے گزرتے نہ تھے،باباجی نے بتایا کہ کچھ سالوں بعد میرا وہ جن دوست فوت ہوگیا اب مجھے وہ ملاقاتیں،اور نظارے ملنا بندہوگئے، تو میں پریشان تھاآخر میں نے ایک مولوی صاحب جو علاقہ بڑبن (نزد نیومیرپورشہر)کے تھے اوران کے پاس بھی جنات تھے، ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی جنات کا عمل دیں،اورمیں نے انہیں بتایا نہ تھا کہ میرے پا س پہلے بھی جنات تھے، تووہ مجھے عمل دینے سے گریز کرتے رہے، کچھ عرصہ میں لگا تار ان کے پاس جاتا رہااور باربار یہی عرض کرتا ایک دن انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھا اور رات عشاء کے بعد کہنے لگے اب گھرچلے جاو کل تمہیں عمل دے دوں گا،اس گاوں سے اکالگڑھ کاسفر تقریبا سات آٹھ میل سے زیادہ تھا،اور راستے میں کئی خوفناک جگہیں تھیں، میں ان سے اجازت لے کر نکلا تو جیسے اس گاوں سے باہر ہواتو میں نے دیکھا کہ میرے دونوں طرف جنات کی لائنیں تھیں لیکن میں نے یہ سب مناظر دیکھے ہوے تھے، لہذامیں بے خوف ان میں چلتا ہوا گھر آگیا، اور دوسرے دن صبح ہی صبح ان کے پا س گیا تو وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوے کہ یہ تو خیر خیریت سے آگیا ہے، اب انہوں نے مجھے ایک عمل دیا جس سے میں نے ایک جن کو اپنے مطیع کرلیا،اورباقی زندگی پھر اس کے ساتھ ہی جناتی یا ایسے معاملات میں لوگوں کے کام کرتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ بابا صاحب کی مغفرت فرمائے، آمین۔بقول علماء کے مہذب جنات جب انسانوں کی بستیاں قریب بن جائیں تووہ وہاں سے منتقل ہوجاتے ہیں،واللہ اعلم۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم
جنات کی بستی

Facebook Comments Box