تحریر۔احمد بلوچ
گزشتہ چند دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی ہے جس میں ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کو ایک معزز پروفیسر، محقق اور فکری رہنما کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بی ایل اے سے منسلک سوشل میڈیا نیٹ ورکس ان کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں اور انہیں صرف ان کے خیالات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ لیکن زمینی حقائق، تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس اور دستیاب شواہد کے ساتھ ساتھ خود انکا اعتراف جرم حقائق سے پردہ چاک کرتا ہے۔ یہ حقائق نہ صرف چونکا دینے والی ہے بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ کس طرح دہشت گردی کو فکری لبادہ پہنا کر معصوم ذہنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں کہیں کرتبہ لکھ چکا ہوں کہ ادراک کی جنگ میں حقائق کو جھوٹ جبکہ جھوٹ کو حقائق کے ساتھ ملا کر مفادات کی تکمیل کیلئے سمگلنگ کی جاتی ہے۔
ذرائع کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار سے پانچ برسوں کے دوران عثمان قاضی (جو دہشت گرد نیٹ ورکس فتنتہ الہندوستان میں ’’امیر‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے) صرف ایک پروفیسر نہیں تھے بلکہ کالعدم تنظیم بی ایل اے کے فعال رکن اور اس کے خودکش ونگ مجید بریگیڈ کے سہولت کار و ہینڈلر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کا کردار پس پردہ رہتے ہوئے نئے بھرتیوں کو تیار کرنا، حملوں کو سہولت فراہم کرنا اور دہشت گرد کمانڈرز کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں اب جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ ان کے شواہد بارہا سامنے آ چکے ہیں۔
خطرناک بات یہ کہ ایک استاد اور طالبعلم کے درمیان جو ایک خوبصورت اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے آج فتنہ الہندوستان نے اس معتبر تعلق کہ جس سے معاشرے کی تشکیل ہوا کرتی ہے کو نقصان پہنچایا گیا۔ قاضی نے اپنے سرکاری منصب اور یونیورسٹی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو انتہا پسندی کی طرف مائل کیا۔ ان کی کلاس روم کی نشستیں محض تعلیمی گفتگو تک محدود نہ رہیں بلکہ وہاں بی ایل اے کے بیانیے کو پھیلانے اور نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک استاد کا یہ کردار سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ طلبہ اپنے استاد کی بات پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ اعتماد جب انتہا پسندی کے لیے استعمال ہو تو اس کے نتائج پورے معاشرے کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔
یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قاضی نے اپنی پوری تعلیمی زندگی ریاستی وسائل پر گزاری۔ وہ سرکاری وظائف پر تعلیم حاصل کرتے رہے، قائداعظم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور بعدازاں گریڈ 19 کے سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی اہلیہ بھی گریڈ 17 کی سرکاری ملازمہ ہیں۔ ان کا پورا خاندان ریاستی سہولتوں سے مستفید ہوتا رہا لیکن اسی ریاست کے خلاف انہوں نے سازش کی۔ باوجود ان تمام ریاستی شفقت کے چند ایک گروہ آج بھی ریاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہے۔ یہ کون لوگ ہے، کہا سے یہ پروپیگنڈا پھیلاتے ہے ریاست کو ان کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے۔ قاضی نے تمام تر ریاستی عزت و افزائش کو رد کرتے ہوئے نا صرف ریاست کے ساتھ بے وفائی بلکہ غداری کی ایک بڑی مثال قائم کردی۔ قاضی ایک کھلا تضاد اور ریاستی اعتماد کی بدترین خلاف ورزی پر رہتے ہوئے معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ کیا ریاست ان سے ان شہدا کا حساب لے گی؟
مزید یہ کہ تحقیقات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ قاضی براہ راست بی ایل اے کے کمانڈرز بشیر زیب، رحمان گل اور ڈاکٹر ہیبتان بلوچ کے احکامات پر عمل کرتا رہا۔ یہ کمانڈرز بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑے نیٹ ورکس چلا رہے ہیں اور متعدد حملوں کے ذمہ دار قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان کے ساتھ قاضی کی وابستگی محض فکری نہیں بلکہ عملی نوعیت کی تھی جس میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور سہولت کاری شامل ہے۔
ایک سنگین مثال 9 نومبر 2024 کی ہے جب قاضی نے دہشت گرد بابر رفیق کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کے لیے بھیجا۔ اس حملے میں 32 معصوم شہری اور 22 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 55 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ ایک ہولناک سانحہ تھا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعد ازاں تحقیقات نے واضح کیا کہ اس حملے کی پشت پر قاضی ہی تھا جس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جسے نہ تو فکری آزادی کے پردے میں چھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے جبر کے خلاف جدوجہد کا نام دیا جا سکتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ یہ بھی انکشاف ہوا کہ 14 اگست کو کوئٹہ میں ایک اور دہشت گرد حملے کی تیاری ہو رہی تھی۔ قاضی اس منصوبے میں دہشت گرد شیر دل عرف بہاؤالدین مری کو پناہ دینے اور فورسز کی کارروائی سے بچانے کے انتظامات کر رہا تھا۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا تو ایک قومی دن خون میں نہا جاتا اور ملک بھر میں انتشار پھیل جاتا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قاضی کا کردار کسی صورت علمی یا فکری نہیں بلکہ براہ راست دہشت گردانہ نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔
اب سوشل میڈیا پر یہی دہشت گرد گروہ اور ان کے ہمدرد قاضی کو ’’عوام کی فکری آواز‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ وار فیئر کی ایک خطرناک مثال ہے جس کا مقصد ایک دہشت گرد کو دانشور ثابت کرنا ہے تاکہ نوجوان نسل کو گمراہ کیا جا سکے۔ جب کوئی شخص جس نے درجنوں بے گناہوں کے خون میں ہاتھ رنگے ہوں، اسے پروفیسر یا مظلوم بنا کر دکھایا جائے تو یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر وہ لوگ جو ریاستی وسائل پر پل کر بڑے ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی، سرکاری عہدے سنبھالے، وہ کس طرح ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ یہ ریاستی وسائل کا بدترین استحصال ہے اور اسے کسی طور بھی جائز نہیں کہا جا سکتا۔ یہ دراصل صریح غداری ہے جسے کسی لفاظی یا پروپیگنڈے کے ذریعے چھپایا نہیں جا سکتا۔
صحافیوں اور دانشوروں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کن افراد کے دفاع میں لکھ رہے ہیں اور کس بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔ کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے الفاظ دراصل ان نیٹ ورکس کو مضبوط کر رہے ہیں جنہوں نے درجنوں بے گناہوں کو شہید کیا۔ کسی بھی شخص کو مظلوم بنا کر پیش کرنے سے پہلے اس کے کردار اور شواہد کو پرکھنا صحافتی ذمہ داری ہے۔ ورنہ یہ صرف دہشت گردوں کی بیانیہ جنگ کو تقویت دینے کے مترادف ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ بیانیہ جنگ سے ہے۔ دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کو نظریاتی جدوجہد کے طور پر پیش کر رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کو متاثر کیا جا سکے۔ لیکن یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ ایسے بیانیے کو آگے بڑھانے والے آخر کس کے ایجنڈے کی خدمت کر رہے ہیں۔ کیا یہ ملک کے عوام کے ساتھ انصاف ہے یا پھر دشمن کے منصوبوں کو سہولت دینا۔
ریاست، اکیڈیمیا اور میڈیا کے کردار کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک شخص ریاست کے پیسے پر تعلیم حاصل کرے، سرکاری عہدہ پائے، اور پھر انہی وسائل کو ریاست کے خلاف استعمال کرے تو یہ کھلی بغاوت ہے۔ ایسے شخص کو مظلوم یا فکری رہنما بنا کر پیش کرنا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں پر اس خطرناک بیانیہ سازی کو مسترد کرنا ہوگا تاکہ سچ عوام کے سامنے آ سکے اور دہشت گردی کو فکری لبادہ پہنا کر بچانے کی کوشش ناکام ہو۔