آج روس نے یوکرائن کو اس کے بارہ سو نوجوان سپاہیوں کی لاشیں واپس کر دیں۔
آج ایران میں ایک بلڈنگ پر حملہ میں 80 سویلین، بشمول دو درجن سے زائد خواتین اور بچے مارے گئے ہیں۔ 300 سے زائد زخمی ہیں۔ تل ایبب میں خواتین سمیت چار لوگ مارے گئے ہیں اور ستر زخمی ہیں۔
یہ جنگ کی بھیانک قیمت ہے جو کسی بھی قوم کے نوجوان بچے اور ان کی مائیں دیتی ہیں۔ جنگ کا فیصلہ چند لیڈرز کرتے ہیں جن کا اپنا کوئی بچہ جنگ میں نہیں مرتا۔
یوکرائن کے زلیکنسی کے بچے بھی محفوظ رہے جس نے آج بارہ سو لاشیں وصول کی ہیں اور پوٹن کے بھی اور یورپین حکومتوں کے بھی جنہوں نے یوکرائن کو بانس پر چڑھایا تھا۔
یہ ہماری انسانی انا کی قیمت ہے کہ کوئی ملک یا قوم یا معاشرہ دوسرے کے مقابلے میں کمزور یا بزدل نظر نہیں آنا چاہتا چاہے نتیجہ کا علم ہو کہ تباہی آئے گی۔
کسی بھی ملک اور قوم کو مذہب اور قوم پرستی کا نعرہ دے کر جنگ میں دھکیلنا انسانی تاریخ میں ہزاروں سال سے جاری ہے۔ انسانی تاریخ میں جتنی قتل و غارت اور تباہی ہوئی ہے اس کے پیچھے مذہب اور قوم پرستی کھڑی ہے یا ہماری قوم اور ہمارا مذہب دوسرے سے اعلی ہے۔
ایک دوسرے پر یہ برتری ثابت کرنے کے لیے انسان ایک دوسرے کے جوان بچے مارتے آئے ہیں اور جو زیادہ بچے مارے وہ عظیم فاتح/جنجگجو کہلاتے ہیں اور تاریخ میں ان کو بہادر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اس نے لاکھوں دوسروں کے مارے اور اپنے صرف چند ہزار مروائے۔
ویسے عام لوگوں کو بھی داد دیں جو ان سیاسی مداریوں کے لیے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دوسروں سے بڑی قوم یا بڑا ملک یا بڑا مذہب ہیں، اپنے بچے مرواتے ہیں یا دوسروں کے بچے مارتے ہیں۔۔ جن کے اپنے بچے جنگی محاذ سے دور محفوظ اپنے گھروں/بنکرز میں ویڈیو گیمز کھیل رہے ہوتے ہیں۔
انسانی انا سے زیادہ خطرناک اور خوفناک چیز کوئی نہیں ہے۔ انسانی ترقی اور بربادی کے پیچھے یہ انسانی یا ملکی انا کھڑی ہے۔