اپنی اپنی رائے ہے۔ میرا لٹچریر پڑھنے کے حوالے سے محدود تجربہ ہے میرے نزدیک قرت العین حیدر جیسا پڑھا لکھا ادیب اور کوئی اس خطے میں نہیں تھا۔ شاید بہت سارے لوگ اعتراض کریں لیکن میری اب تک یہی رائے ہے۔ میں جتنا قرت العین حیدر کو پڑھتا جارہا ہوں میرے دل میں ان کا مقام مزید بلند ہوتا جارہا ہے۔
یقینا ہر ادب اور ادیب کی لکھنے کی اپنی اپنی فیلڈ ہے۔ اپنا اپنا مزاج ہے اور یہی ادب اور ادیب کی خوبصورتی ہے۔
اس لیے میں کسی ادیب کا دوسرے سے موازنہ نہیں کررہا صرف اپنے رائے دے رہا ہوں۔
مجھے یاد پڑتا ہے طالبعلمی دور میں قرت العین حیدر کو پڑھنے کی کوشش کی تھی تو میرے سر سے ان کی تحریریں گزر گئی تھیں۔ نعیم بھائی سے شکوہ کیا کہ کیا وجہ ہے مجھے ان کی تحریریں سمجھ نہیں آتیں۔
میرے گرو کہنے لگے قرت العین حیدر کو پڑھنے کے لیے پڑھا لکھنا ہونا ضروری ہے۔ پڑھے سے مراد درسی کتب نہیں۔ آپ کو قدیم ہندوستانی تاریخ، ہندوازم، بدھ ازم، اسلام، متھ، دیوی دیوتاوں کے پرانے قصے کہانیوں، جدید دور کی تاریخ، اشوکا سے لے کر انگریز دور تک کے ہندوستانی بادشاہوں کے ادوار کی تاریخ پڑھی ہوئی ہو، دنیا کی تاریخ پڑھی ہو تو پھر ہی آپ اسے کچھ کچھ انجوائے کرسکتے ہیں۔
پھر ہنس کر کہنے لگے تھے اگر اتنا کچھ آپ کو پتہ ہو تو پھر قرت العین کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ دیر بولے نہیں۔۔ اسے پڑھنا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے۔
نعیم بھائی کا کہنا تھا اگر اتنا نہیں پڑھ سکتے تو پھر صرف قرت العین حیدر کو ہی پڑھیں اور اپنے ذہن اور اپنی نوٹ بک کو ایکٹو رکھیں۔
آج جب تیس پینتس سال کے بعد میں قرت العین حیدر کو پڑھتا ہوں تو انجوائے کرتا ہوں کہ اب تھوڑا تھوڑا سا بینادی بیک گراونڈ علم ان چیزوں کے بارے ہے۔
اس طرح میں نے Alchemist کو برسوں پہلے پڑھا تھا تو کچھ سمجھ آیا اور زیادہ نہ آیا۔ کچھ برس بعد پڑھا تو سمجھ میں آیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بعض تحریریں عمر بیت جانے کے ساتھ مزہ دیتی ہیں یا سمجھ میں آتی ہے۔ بعض کتابیں آپ کی ذہنی پختگی یا گروتھ کا انتظار کرتی ہیں۔
جتنی قرت العین حیدر پڑھی لکھی تھیں اتنا ہی زیادہ انہوں نے لکھا بلکہ بے تحاشہ لکھا۔ میں حیران ہوتا ہوں کوئی ایک انسان اتنا سارا کیسے لکھ لیتا ہے کہ ہر کہانی کا نیا پلاٹ، نئے لوگ، نئے کردار اور نئے ٹوسٹ۔
میرا خیال تھا اب تک جو قرت العین حیدر نے لکھا وہ میں نے اگرچہ سارا کچھ نہیں پڑھا لیکن کم از کم مجھے ان کا علم ہے۔ لیکن ہر دفعہ ان کی کوئی نہ کوئی نئی تحریر کتابی شکل یا پرانے نقوش میں مل جاتی ہے جو پہلے نہ سنی تھی نہ پڑھی تھی۔
ابھی یہی دیکھ لیں مجھے “روشنی کی رفتار” اور “دلربا”کے بارے علم نہ تھا۔
اللہ بھلا کرے پرانی کتابیں بیچنے والوں کا جو گزرے زمانوں کی تہہ میں مدفون خزانے ڈھونڈ کر ہمارے تک پہنچاتے ہیں اور میرے جیسے بھوکے پیاسے تک یہ دریا پہنچ جاتا ہے اگرچہ یہ دریا بھی کم لگتا ہے۔
ویسے زرا قرت العین حیدر کا افسانہ “دو سیاح” تو پڑھ کر دیکھیں۔ ہائے ہائے کتنے دن اس کی سرشاری سر پر سوار رہے گی۔ اس ایک افسانے میں قرت العین حیدر نے کتنا مجھے باعلم بنا دیا۔ مجھے کتنی باتوں کا علم نہ تھا جو اس چند صفحات کے افسانے نے دے دیا۔ شاید وہ نعیم بھائی والی بات کہ قرت العین حیدر کو پڑھنے سے پہلے اپنا مطالعہ بڑھائو۔ یہ بات انہوں نے مجھے 35 سال قبل کہی تھی۔ پینتس سال بعد میں قرت العین کی تحریروں سے لطف اندوز ہونا شروع ہوا ہوں۔
لاعلمی اور جہالت کا سفر طویل ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسانی ضد ہوتی ہے کہ مجھے سب پتہ ہے۔ میں ہی عقل کل ہوں۔ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔ اس لیے لاعملی دھیرے دھیرے ختم ہوتی ہے اگر آپ اسے ختم نہیں کرتے تو یہ آپ کو ختم کردیتی ہے۔ یہ ایک صبر آزما سفر ہے اور وہ بھی اگر آپ خود کو لاعلم سمجھ کر اس سفر پر روانہ ہوں اور سب سے بڑھ کر آپ سقراط والی بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی لاعلمی دور کرنا چاہیں کہ مجھے ایک بات کا ہی علم ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں۔