سیلاب کے بعدکیاہوناہے

آج کل پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں،سیالکوٹ،لاہور،گجرات کے کے اردگردکے زیریں علاقے کچھ توصفحہ ہستی سے مٹ گئے کچھ نام ونشان لیے پانی میں تصویربنے بیٹھے ہیں،اورسیلاب چلتے چلتے جنوبی پنجاب اورسندھ میں داخل ہورہا ہے،حکومتیں اپنی اپنی استعداداورشعورکے مطابق مصروف ِ کارہیں۔لیکن قدرت کا مقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں،قدرتی آفات جب بھی آتی ہیں،ان میں زیادہ ترغریب اورلاچارلوگ ہی متاثرہوتے ہیں،شایدبقولِ علامہ اقبال ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات“۔لیکن حکمران جوبھی ہوں، میرے آقاﷺکافرمان ہے کلکم راع وکلکم مسؤلون، یعنی تم سارے رعایا والے ہوتم سب سے پوچھا جائے گا۔کوئی کہے کہ قدرتی آفات کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا،ہاں پوچھا جائے گا، کہ تم نے ان حالات پرنظرکیوں نہ رکھی جن کی وجہ سے قدرتی آفات انسانوں پرنازل ہوئیں،یاانسان ان کی راہوں پڑے رہے۔ہمارے یہاں جمہوری حکومتوں کا چلن ہے،جوپیسے اورطاقت سے بنتی ہیں،جن لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے،یاجوطاقت کے بل بوتے پرلوگوں خرید یا ہانک لیتے ہیں،ان کے پاس انسانوں کی فلاح وبہبودکا کیا منشورہوگا، یا پھرانہیں انسانی تکالیف وضروریا ت کی کیا خبرہوگی؟پھرجمہوریت کاہمارے ہاں ایک حسن یہ بھی ہے کہ کسی حکومت کوچلنے نہیں دینا،قومی اسمبلی میں جہاں ملک وقوم کی فلاح وبہبودپرسوچ بچار کرنی چاہیے وہاں گالی گلوچ اورملک وقوم کی تضحیک کا سامان کیا جاتا ہے،کوئی اچھے سے اچھا کام بھی ہوتوحسن اس میں کیڑے نکالتا رہتا ہے،چاہے وہ لوہے کا ہی ہو، ہمارے ایک سائنس ٹیچرتھے،وہ جب تبدیل ہوے توچارج دیتے وقت کچھ لوہے کے لیمپ سٹینڈ کم پائے گئے تووہ کہنے لگے لکھ دوکہ دیمک کھاگئی۔اسی طرح ہماری اسمبلی ممبران جوبھی اپوزیشن میں ہوں وہ بجٹ کی کاپیاں پھینکنے اورپھاڑنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہوتے کہ اس بجٹ کے فوائدونقصان کیاہوں گے۔ایسے ہی ہمارے حکمران اپنے ماتحت اداروں پراس قدر اندھا اعتماد کیے ہوتے ہیں کہ ادارے اگرکسی کام کوجوقوم اورملک کے نقصان کا سبب ہو،بلکہ اس حکومت کے لیے بھی سوالیہ نشان بن سکتاہووہ کررہے ہوں توحکمران آنکھیں بندکیئے اس پرسائن کردیتے ہیں،اورجب ایسے کاموں کی پاداش میں حکومت سے نکالے جاتے ہیں توپھرکہتے ہیں،ہمارے توہاتھ بندھے ہوے تھے،اوبھئی ہاتھ توبندھے تھے آنکھیں توکھلی تھی نا،لیکن آنکھوں پرجب حکومت کے نشے کاپردہ پڑاہوتوپھرکیا سوجھتا ہے۔ان دنوں پاکستان انڈیا کوتارے دکھانے کی وجہ سے دنیا کی آنکھ کا تارابنا ہوا ہے،اوردنیا اپنی مکاریوں کے ساتھ پاکستان کواینٹھنے میں لگی ہوئی ہے، دنیا کی واحدسپرپاورجوکبھی پاکستان کی حلیف ہونے کے باوجودپاکستان کے کام نہ آئی،وہ بھی آج کل پاکستان سے معاہدے اورپاکستان کوسہولتیں دینے میں مصروف ہے، اسی لیے امریکہ سے بل گیٹس نے پاکستان کو سروائیکل کینسرکی ویکسین مفت میں بھیج دی ہے، اورپاکستان کی ان تمام بچیوں کوجونوسے چودہ سال کی ہیں انہیں وہ لگائی جائے گی، پاکستان کی بیوروکریسی اورحکومت نے پاکستان کے حالات دیکھے بغیراس ویکسین کو لگانے کے لیے آرڈرکردیا ہے، جوپہلے اسکولزکی طالبات کولگائی جائے گی،چلوحکومت نے اتنابھلا کیا ہے کہ ویکسین لگوانے کا آپشن دے دیا ہے کہ آپ اپنی بچی کو ویکسین لگوانا چاہتے ہیں یا نہیں،اب لوگوں کی مرضی لگوائیں یا نہ لگوائیں۔لیکن ہمارے ڈاکٹر حضرات بھرپورطریقے سے اس ویکسین کے حق میں آگاہی مہم چلارہے ہیں،کہیں خدشات کودور کرنے کے لیے کہا جارہا ہے،کہ یہ بہت سے یورپی ممالک میں تجربہ کرنے کے بعداب پاکستان کو بھیجی گئی ہے، لہذااس میں کوئی خدشہ نقصان نہ ہے،اب قابلِ غورہے کہ آج تک ہمارے ڈاکٹروں نے کوئی ویکسین یا علاج خودایجادکیا ہے،جسے وہ اپنی قوم کے علاج کے لیے استعمال کرسکیں یا اسے عالمی طورپرفروخت کرکے ملک کے لیے زرِ مبادلہ کما سکیں،یاہمارے ڈاکٹروں کی روزی روٹی کا واحدذریعہ یہی ہے کہ وہ یورپ وامریکہ کی ادویات کواپنے ملک میں سیل کرکے اپنی اکانومی کوزیرِ بارکریں، یہ سوال حکومت کواپنے ادارہ سے پوچھنا چاہیے،کیا حکومت عوامی بجٹ اورعوام کے ٹیکسوں سے ان ڈاکٹروں کواس لیے تیارکررہی ہے کہ وہ اس ملک کوwhoکی ادویات کی منڈی بناسکیں۔ان دنوں کینسرویکسین کی مہم چلانے کے بجائے ہمارے شعبہ صحت کوسیلاب کے بعدپھوٹنے والے امراض کے لیے تیاری کرنی چاہیے، کہ کل جب ہیضہ،میعادی بخار،ملیریا،ڈینگی،اوراس قسم کے تعفن والی بیماریاں پھیل جائیں گی توپھربل گیٹس سے کہا جائے گا، کہ”دے جاسخیاراہِ خدا“،کہ ہمارے پاس ان امراض کے علاج نہیں ہیں اورجب تک وہاں سے ادویات آتیں بقول فارسیاں ”تاتریاق ازعراق آوردہ شد،مارگزیدہ مردہ شد“وہ پھرویکسینیں بھیجیں گے،جوشایدامراض میں مبتلا مریضوں کولگانابذاتِ خودان مریضوں سے جان چھڑانے کے مترادف ہوتا ہے۔لہذاحکومت سے اپیل ہے کہ وہ اپنے محکمہ صحت کوابھی ایسی ادوایات کی تیاری میں لگا دیں جو سیلاب کے بعد پھوٹنے والی ہیں،اوربالخصوص دیسی ادویات اوروہ تمام شعبہ علاج جن کو ایلوپیتھک کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے بند کیا ہوا ہے انہیں اپنی اپنی حدودمیں کام کرنے کی اجازت دی جائے، جیسے پہلے تھی۔ طبِ نبوی،طبِ یونانی، آیورویدک، ہومیوپیتھک، الیکٹروہومیوپیتھک،نیچروپیتھی،چائینی طب،جوباقی دنیا میں اپنے اپنے طریقہ کارکے تحت کام کررہی ہیں۔ایلوپیتھک کوئی اللہ کی طرف سے نازل شدہ طریقہ علاج نہیں کہ پاکستاان میں صرف اسلامی حکومت اسے ہے نافذ کرنے میں دن رات ایک کیے ہوے ہے۔اللہ تعالیٰ حکمرانوں کومذہبی اورقومی شعور سے نوازے،اورپاکستان کواپنے مقصدِ تخلیق کے مطابق اسلام کے نفاذسے معززفرمائے آمین وماعلی الاالبلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم

Facebook Comments Box