تحریر۔نظام الدین
میرے ایک قانون دان دوست ماجد علی نے میری درخواست پر سماج میں فلاحی کام کرنا شروع کیا تو کچھ سماج دشمن عناصر نے ان کی زندگی میں دشواریاں پیدا کرنا شروع کر دیں، تب” میں نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ کالم ان کے نام کردیا !!!
یوں تو ہمارے سماج ملک اور عالمی سطح پر لاکھوں موضوعات پر کہانیاں بگھری ہوتی ہیں مگر جب کوئی رائٹر سماج کی فلاح کے لیے لکھنا شروع کرتا ہے تو پہلے پہل سماج کے نزدیک اس موضوع کی وسعت نہیں ہوتی تنوع نہیں ہوتا تھا مگر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے رائٹر جس موضوع پر بھی لکھتا ہے وہ اسے اپنی محنت لگن اور زہانت سے چار چاند لگا دیتا ہے۔ رائٹر مضمون کی ابتداء غم جاناں سے شروع کرتا ہے پھر دھیرے دھیرے قاری کو غم دوراں کی سیر کراتا ہوا زندگی اور کائنات کی وسعتوں کو بھی موضوع میں سمیٹ لیتا ہے۔ مگر یہاں تک آنے یا اس مقام تک پہنچنے کے لیے رائٹر کو کتنے ہفت خواں طے کرنے ہوتے ہیں؟ رائیگانی کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ؟ نرگسیت کے کتنے طعنے سہنے پڑتے ہیں ؟ کتنوں نے زعفران اور ہذیان کا فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی ہوتی ہے؟ مگر تھک ہار کر دشمنان یاران بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ سماج کے لیے موضوع تو اچھا تھا مگر سماج دشمن انسانوں نے بدنام بہت کیا !!
دراصل سماجی موضوعات انسان کی قدروں اور جذبات سے جڑے ہوتے ہیں اس لیے ان پر بات کرنا بعض لوگوں کے لیے حد سے زیادہ ذاتی یا نازک محسوس ہوتا ہے ، اسی وجہ سے وہ نسبتاً غیر متنازع مادی موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ سماج میں فلاحی کام کرنے سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ضروری ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بدلنے کے لیے جن اجتماعی اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے ، ان میں ایک اہم صفت یہ ہے کہ ہم مستقل احتساب کی طرف مائل ہو ں اور جوں ہی اپنی کسی کمزوری کا احساس ہو تو خود کو بدلنا ہمارے لیے دشوار نہ ہو کیونکہ
زوال اور کمزوری کسی بھی سماج کو جمود کا شکار بنادیتی ہے ۔ اور سماج کے اندر تبدیلی کے لیے شدید مزاحمت پیدا کی جاتی ہے ۔ سماج میں کمزوریوں کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ مطلب تبدیلی کا شعور بھی ہوتا ہے لیکن اس شعور کے مطابق پورے سماج کا بدلنا ممکن نہیں ہوتا ۔ یہ جمود بہت بڑی کمزوری ہے۔اس سے کوئی بھی سماج زمانہ کے تقاضوں کو نبھانے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ سماج کے لیے کام کرنے والوں کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور توبہ کرنے والے ہوتے ہیں ، اور توبہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے، توبہ کے لفظی معنی ہی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں ۔افراد اور سماج کو اگر اس بات ہر قدرت حاصل ہو کہ وہ تیزی سے خود کو بدل سکیں، اسٹیٹس کو توڑ سکیں ، جن تبدیلیوں کو شعوری طور پر وہ درست اور مطلوب سمجھتے ہیں ، انھیں تیزی سے اختیار کر سکیں ، تو یہ ان کے لیے بہت بڑی قوت ہوتی ہے اور یہ بھی سماجی قوت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس طرح رویہ کی طاقت صبر ، توکل اور ایمان کے اوصاف سے عبارت ہوتی ہے یہ تین اوصاف صبر ، توکل اور توبہ مل کر وہ مطلوب رویہ پیدا کرتے ہیں جو سماجی قوت بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں ، اور پھر سماج کے لیے جان دینے والی پروین رحمان ، حکیم محمد سعید عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے ہیروز کا جنم ہوتا ہے!!
اندھیروں میں چراغ تھے مسکراہٹ کا گلاب تھے
غریبوں کی دعاؤں میں چھپے خدا کے انتخاب تھے ،