بلڈر مافیا سے اداروں کی گٹھ جوڑ

تحریر ۔نظام الدین

کراچی ضلع شرقی لائینز ایریا
پارکنگ پلازہ پر ختم ہوتا ہے، اور اس سے آگے ایمپریس مارکیٹ سے جنوبی ضلع شروع ہوجاتا ہے، ان دونوں ضلعوں کے سنگم پر کنٹونمنٹ، کے ڈی اے، اور کے ایم سی ، کی مشترکہ زمینیں ہیں ان زمینوں پر
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہیں جبکہ بعض اوقات سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے درمیان اختیارات کا تنازعہ رہتا ہے جس کا ناجائز فایدہ لینڈ اور بلڈرز مافیا اٹھا رہے ہیں ان دونوں ضلعوں کے سنگم پر کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ناقص میٹریل سے ہائی رائز بلڈنگیں تعمیر ہو رہیں ہیں اور بلڈرز حضرات غیر قانونی تعمیرات کو بچانے کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کا نام استعمال کر رہے ہیں ،
اسی طرح مڑار قائد سے متصل جنوب کی سمت تقریباً 1٫2 کلومیٹر تک اونچائی کی حد مزار قائد کے پودیم لیول 91 فٹ سے زیادہ کوئی عمارت نہیں قائم ہو سکتی یہ قانون کراچی بلڈنگ اینڈ پلائنگ دیگولیشنز 2002 میں شامل ہے اور عدالتیں بار بار اس پر عمل درآمد کے احکامات دیتی آرہی ہیں مگر یہاں پلاٹ نمبر
(ایم سی 4 )بلاک اے، سیکٹر1
اور پلاٹ (ایم سی 7) بلاک بی سیکٹر1 کو حدود سے تجاوز کرنے پر ہائی کورٹ نے تعمیر روکنے کا حکم دیا تھا مگر عمل درآمد نہیں ہوا، ان ہی دونوں ضلعوں کے سنگم پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سی بریرز پلازہ گرانے کے احکامات موجود ہیں مگر عمل درآمد نہیں ہوا ،
اس طرح دیگر پلاٹ غیر قانونی فلیٹ منصوبے مختلف ادوار میں مزار قائد کے اطراف قانون کی خلاف 102 بلڈنگ کی فہرست بھی موجود ہے ،
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20ماہ کے دوران کراچی میں 6000سے زائد غیر قانونی تعمیرات ہوئیں جبکہ صرف 3000کے قریب انہدامی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جن میں سے اکثر فرضی اور ریکارڈ کا پیٹ بھرنے کے لئے تھیں ، نیب کراچی کے انکوائری افسران نے ان فہرستوں کی تیاری میں بہت تساہل ، تجاہل اور تغافل سے کام لیا ہے اور سالوں پرانی شماریات پر اکتفا کرتے ہوئے رپورٹ تیار کی ہے، جو غیر قانونی تعمیرات کی حالیہ سنگینی کو ظاہر نہیں کرتی ، گزشتہ سالوں میں تو سمیع جلبانی (ڈی ڈی)، خاور حیات (اے ڈی)، عزیر امتیاز (اے ڈی)، سلمان شاہد (ایس بی آئی) اور محسن (بی آئی) نے کروڑوں روپوں کی غیر قانونی تعمیرات پر آنکھیں بند رکھیں
قومی احتساب بیورو کی اسکروٹنی کمیٹی برائے نیب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مجاز اتھارٹی نے قومی احتساب آرڈیننس، 1999کی دفعہ 9(a)کے تحت بیان کردہ کرپشن اور زیرِدفعہ 10 ملوث ملزمان، سابقہ ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو ، ڈی جی عبدالرشید سولنگی اور دیگر کے خلاف انکوائری کی اجازت دی تھی۔ مؤرخہ 28؍مارچ 2025 کو نیب حکام نے 312 صفحات پر مشتمل اپنی تحقیقاتی رپورٹ بطور چار شیٹ برخلاف مذکورہ افسران، چیف سیکریٹری سندھ کو برائے اطلاع ارسال کی ہے ۔ نیب کی مرتب کردہ حتمی انکوائری رپورٹ کا موضوع سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کراچی کے افسران / اہلکاران اور دیگر افراد کا، منظم انداز میں ذاتی فوائد کے لیے بلڈنگ ضوابط کے برخلاف غیر قانونی تعمیرات اور عمارتوں کے نقشے کی منظوری میں ملوث ہونا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اس رپورٹ میں یہ نوٹس کیا گیا ہے کہ محمد اسحاق کھوڑو کو تیسری بار بطور ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تعینات کیا گیا جبک ان پر بدعنوانی، اختیارات کا غلط استعمال، اور غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دینے کے سنگین الزامات ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں انہیں “پٹہ سسٹم” چلانے میں مرکزی کردار قرار دیا گیا تھا ۔ جس میں مافیا کے ساتھ مل کر رشوت کے بدلے غیرقانونی منزلیں، تجارتی استعمال اور ماسٹر پلان کے خلاف تعمیرات کی منظوری شامل ہے ۔ متعدد شکایات اور میڈیا رپورٹس کے بعد، یکم ستمبر 2023تا اپریل 2025تک کے دورانیے میں یہ تفتیشی رپورٹ تیار کی گئی ہے ۔ جس میں مذکورہ ملزمان پر الزامات عائد کئے ہیں
(1)ایس بی سی اے افسران نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر رشوت کے بدلے غیرقانونی تعمیرات کی منظوری دی ۔
(2)( KBTPR 2002ترمیم شد)
اور تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کی۔
(3)ماسٹر پلان اور زونل حدود کی خلاف ورزی سے شہری منصوبہ بندی کو تباہ کیا۔
(4)پٹہ سسٹم کے ذریعے تیزی سے غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دینا اور بڑے پیمانے پر مالی فائدہ حاصل کرنا۔
(5)دکھاوے کے لیے جزوی طور پر تعمیرات کو گرانا، لیکن بعد ازاں دوبارہ غیرقانونی تعمیرپر رہائش پذیر ہونا ،
(6)نکاسی آب اور دیگر عوامی مقامات پر قبضے کی اجازت دینا۔ (7) کراچی کے ماسٹر پلان اور رہائشی مقامات کے استعمال میں بدعنوانی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20ماہ کے دوران کراچی میں 6000سے زائد غیر قانونی تعمیرات ہوئیں جبکہ صرف 3000کے قریب انہدامی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جن میں سے اکثر فرضی اور ریکارڈ کا پیٹ بھرنے کے لئے تھیں۔ ۔
رپورٹ کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹراحسن ادریس اور بلڈنگ انسپکٹر کاشف تو گزشتہ 20سال سے زیادہ عرصے سے ایک ہی ضلع میں اپنی تعیناتی برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ چنانچہ وہ جائز و ناجائز طریقے سے کام کرواتے ہیں۔ اعلیٰ حکام بھی انہیں ان کے من پسند ضلع میں ہی برقرار رکھنے پر زیادہ رضامند رہتے ہیں کیونکہ وہ بھی بھتہ کی وصولی کے لیے اپنی کام ہی کے افسران چاہتے ہیں۔
جب سے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم کیا گیا تب سے اتھارٹی کی کارکردگی بجائے بہتر ہونے کے مزید خراب ہوتی گئی محض نام تبدیل کرنے یا چند افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی اب ضرورت ؤ تقاضا یہ کہتا ہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بھی کراچی کی طرح رینجرز کے حوالے کردیا جائے ،،

۔

Facebook Comments Box