سانحہ عفیفہ کائنات

آج سے تقریباً چار ماہ قبل ہم ادارہ علم و آگہی کارکنان کو سیالکوٹ کے گائوں قلعہ کالر والا جانے کا اتفاق ہوا۔ اس مختصر سفر کا مقصد وہاں ایک فکری نشست، میٹنگ تھی، جس کے میزبان ایک نہایت شفیق، منکسر المزاج اور بااخلاق شخصیت قاری عبد الحفیظ عابد صاحب تھے۔ قاری صاحب کی مہمان نوازی نے دل موہ لیا۔ ان کی سادگی، خلوص اور محبت ایسی تھی کہ ہم اجنبی ہو کر بھی اپنائیت محسوس کرنے لگے۔ وہ نہ صرف ایک عالم دین ہیں، بلکہ ایک ایسے انسان ہیں جن کی باتوں میں نرمی، لہجے میں محبت اور چہرے پر عاجزی جھلکتی ہے۔
قاری صاحب ایک عرصہ سے اسی گائوں میں قرآن و سنت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ دل میں اخلاص کی دولت لیے انہوں نے دنیاوی شہرت کی بجائے دینی خدمت کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔اس نیک انسان کو ایسا زخم لگا ہے کہ جس نے نہ صرف اس گائوں بلکہ ہر باشعور انسان کے دل کو زخمی کر دیا ہے۔
گزشتہ دنوں 15 ستمبر 2025ء کو قاری صاحب کی ننھی سی بیٹی، عفیفہ کائنات، جس کی عمر ابھی صرف چار سال تھی پھول جیسی، معصوم، فرشتوں جیسی پاکیزہ اچانک لاپتہ ہو گئی۔ ماں باپ، جو دن بھر اس کی توتلی توتلی باتیں سن کر مسکراتے خوش ہوتے تھے۔جن کے خوابوں میں اس کی ہنسی گونجتی تھی، تڑپتے رہے، دعائیں کرتے رہے، دروازے کی طرف نظریں دوڑاتے رہے۔ابھی بھی آجائے گی، ابھی بھی کہیں سے اطلاع مل جائے گی، کہ آپ کی گڑیا خیریت سے ہے مل گئی ہے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ چار دن بعد اس ننھی سی جان کی لاش گائوں سے باہر کھیتوں سے ملتی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میڈیکل رپورٹ نے جو انکشاف کیا، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ تھا۔ اس معصوم کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔اس بہت بڑے سانحہ کی صحیح معنوں میں نہ میڈیا نے آواز بلند کی، نہ کوئی نمایاں حکومتی نمائندے ان کی دادرسی کو پہنچے۔ شاید یہ ظلم اس لیے دب گیا کیونکہ یہ خاندان شریف تھا۔ بااثر نہیں تھا۔ دین دار تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انصاف صرف ان کے لیے ہے جو شور مچانا جانتے ہیں؟ جو سڑکیں بلاک کرتے ہیں؟ جو جلائوگرائوکرتے ہیں؟کہ عفیفہ کائنات کا خاندان ان سب سے محروم تھا، سو انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔لیکن یہ نظر انداز ہونا درحقیقت ایک اجتماعی مجرمانہ خاموشی ہے، جو ہر شریف النفس، ہر غریب، ہر دیندار اور ہر درد دل رکھنے والے انسان کو پیغام دے رہی ہے کہ اگر تم بااثر نہیں ہو، تو تمہارے بچوں کی بھی جان کی کوئی زیادہ قیمت نہیں ہے!۔
اہل اقتدار سے سوال ہے کہ قانون کی دیواریں اس قدر کمزور کیوں ہو گئی ہیں کہ ایک ننھی بچی کے ساتھ درندگی کے بعد بھی کوئی ہنگامی عدالت نہیں لگی؟
کوئی ازخود نوٹس جاری نہیں ہوا؟
کوئی جے آئی ٹی تشکیل نہیں دی گئی؟
حالانکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جانوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی پر بھرپور طریقے سے رپورٹنگ ہوتی ہے ، مگر یہاں ایک زندہ انسان ایک بچی کی بے حرمتی اور قتل کو شاید اس لیے نظرانداز کیا گیا کیونکہ وہ سادہ، غیر سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔خدا نہ کرے اگر ایسے ہی معاشرہ خاموش تماشائی بنا رہا تو کل کو ہماری اپنی دہلیز پر بھی یہ ظلم دستک دے سکتا ہے۔اس لیے جہاں تک ہو سکتا ہے مظلوم کی آواز پر لبیک کہنا، جیسے بھی اس کی مدد ہو سکتی ہے یا جس طریقے سے مظلوم کی دادرسی ہو سکتی ہے ضرور کرنی چاہیے۔ مظلوم کا ساتھ اس کا مقام و مرتبہ دیکھ کر نہیں بلکہ اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔انصاف میڈیا کے کیمروں کا محتاج نہ ہو۔ شرافت، سادگی اور دینداری کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔جہاں حکومت عوام کی ماں بن کر ان کے زخموں پر مرہم رکھے، نہ کہ صرف طاقتوروں کے دروازوں پر سلام کرے۔
سوال صرف حکمرانوں سے نہیں، یہ سوال ہم سب سے ہے۔ہم جو سوشل میڈیا پر ہر دن ہر خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کیا ہم نے اس بچی کی یا اس جیسے واقعات پر مظلوم کے حق میںآواز بلند کی؟ہم جو ”انصاف، انسانیت، اخلاق” کے نعرے لگاتے ہیں، کیا کردار ادا کیا؟اگر نہیں، تو ہم بھی مجرم ہیں خاموشی کے، بے حسی کے۔
حکومتِ پنجاب، وزیر اعلیٰ، عدالت عالیہ اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے۔اس کیس کو ایک مثال بنا کر مجرموں کو کھلی عدالت میں، فوری ٹرائل کے بعد عبرتناک سزا دی جائے۔
قارئین کرام یہ میری تحریر صرف ایک نوحہ نہیں بلکہ یہ ایک پکار ہے۔ہمیں سانحہ عفیفہ کائنات کیس کو رائیگاں نہیں ہونے دینا ۔
اللہ کریم پسماندگان کو اس صدمے پر صبر جمیل سے نوازے آمین یارب العالمین

Facebook Comments Box