دہشتگردی کا عالمی نیٹورک ہندوستان

تحریر: طارق خان ترین

پاکستان دہائیوں سے دنیا کو متنبہ کرتا آیا ہے کہ بھارت دہشت گردی کا شکار نہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا سرپرست ہے۔ اسلام آباد کی جانب سے بارہا یہ واضح کیا گیا کہ نئی دہلی انتہا پسند تنظیموں کو پروان چڑھاتا ہے، جرائم پیشہ گروہوں کو بطور ایجنٹ استعمال کرتا ہے اور خطے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی عدم استحکام برآمد کرتا ہے۔ ان خدشات کو اکثر سیاسی بیانیہ سمجھ کر نظرانداز کیا گیا، لیکن اب یہ حقیقت تسلیم کی جا رہی ہے۔ امریکا پہلے ہی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کی خودکش ونگ مجید بریگیڈ کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے، اور اب کینیڈا نے بھارت کے بدنام زمانہ بشنوئی گینگ کو دہشت گرد قرار دے کر نئی دہلی کے جھوٹے بیانیے کو ایک اور کاری ضرب دی ہے۔

بشنوئی نیٹ ورک محض کوئی عام گینگ نہیں۔ اس کی کارروائیاں کئی براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں—منشیات کی اسمگلنگ، اسلحے کی ترسیل، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم اس کے دائرۂ کار میں شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر لارنس بشنوئی قید میں بیٹھ کر بھی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی امریکا میں اپنے نیٹ ورک کو چلاتا رہا۔ کینیڈا نے جب اس گروہ پر پابندی عائد کی تو محض ایک مافیا کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ بھارت کے ریاستی سرپرستی میں پنپنے والے زیرِ زمین نیٹ ورک کا نقاب بھی نوچ دیا۔

یہ فیصلہ کینیڈا کی سرحدوں سے کہیں آگے اثرات رکھتا ہے۔ برسوں سے جنوبی ایشیا کے ممالک خبردار کر رہے تھے کہ بھارت پراکسی گروہوں کو پروان چڑھاتا ہے اور فرقہ وارانہ و نسلی اختلافات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بشنوئی گینگ کو دہشت گرد قرار دینا ان خبروں کی عالمی توثیق ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ریاست ہمیشہ اپنے پڑوسیوں پر دہشت گردی برآمد کرنے کا الزام لگاتی رہی، آج خود انہی الزامات میں گھِر چکی ہے۔

حقائق خود بول رہے ہیں۔ امریکا میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنٹس سکھ رہنماؤں پر ناکام قاتلانہ حملے میں ملوث پائے گئے۔ آسٹریلیا میں ’’را‘‘ کے جاسوس خفیہ دفاعی معلومات چرانے پر ملک بدر کیے گئے۔ قطر میں آٹھ بھارتی انٹیلی جنس افسران کو غیر ملکی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر جاسوسی کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ یہ سب واقعات ایک تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں—بھارت اپنے جغرافیائی مقاصد کے لیے گینگز، جاسوسوں اور مجرموں کو ہتھیار بناتا ہے اور خود کو ’’معصوم جمہوریت‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔

یہ حکمتِ عملی حادثاتی نہیں بلکہ سوچی سمجھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ توسیع پسند ریاستیں اپنے گندے مقاصد پورے کرنے کے لیے ملیشیاؤں اور جرائم پیشہ گروہوں کا سہارا لیتی ہیں تاکہ سفارتی ساکھ برقرار رہے اور اصل کارروائیاں پس پردہ چلتی رہیں۔ بھارت نے اسی طریقے کو مہارت سے اپنایا ہے۔ بشنوئی گینگ اس وسیع نیٹ ورک کا محض ایک پرزہ ہے جو مخالف آوازوں کو دبانے، بیرونِ ملک برادریوں کو خوفزدہ کرنے اور اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اس پالیسی کے عالمی نتائج نہایت خطرناک ہیں۔ جب ریاستیں منظم جرائم کو سفارت کاری کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں تو ریاستی امور اور دہشت گردی کی سرحد مٹ جاتی ہے۔ بھارت کی جانب سے عدم استحکام برآمد کرنے کا یہ عمل صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی شدید خطرہ ہے۔ جو کام بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے شروع ہوتا ہے، وہ جلد ہی ایسے بین الاقوامی نیٹ ورکس میں بدل سکتا ہے جو تجارت، تارکینِ وطن اور انسدادِ دہشت گردی کی کاوشوں کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔

کینیڈا کا فیصلہ تاریخی ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی مغربی ملک نے کھلے عام بھارتی جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور دہشت گردی کے باہمی تعلق کو تسلیم کیا۔ یہ پیش رفت مزید اقدامات کی راہ ہموار کر سکتی ہے: اثاثے منجمد کرنا، بھرتی کے نیٹ ورکس کو توڑنا، اور نئی دہلی پر سفارتی دباؤ ڈالنا۔ برسوں تک بھارت نے ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے نعرے کے پیچھے خود کو چھپائے رکھا، مگر بشنوئی کا کیس اس نقاب کو چاک کر گیا۔

یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بشنوئی نیٹ ورک نے بھارت کے اندر کم اور بیرونِ ملک زیادہ کارروائیاں کیں۔ شمالی امریکا میں سکھ رہنما، خلیج میں مسلمان آوازیں، اور جنوبی ایشیا کے پسے ہوئے طبقات سب اس کے نشانے پر تھے۔ اس سے بھارت کی حکمتِ عملی کی جڑیں ظاہر ہوتی ہیں: باہر فساد برآمد کرو، اندر اپنی شبیہ صاف رکھو۔

اگر اس دوغلے پن کو نظرانداز کیا گیا تو اس کے مضمرات خوفناک ہوں گے۔ اگر بھارت کی یہ حکمتِ عملی عام ہوئی کہ ریاستیں مافیاز کو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں، تو پھر کل دنیا میں سفارت کاروں کی جگہ غنڈے، تجارتی ایلچیوں کی جگہ اسمگلرز اور مذاکرات کاروں کی جگہ قاتل دکھائی دیں گے۔ یہ عالمی قانون کو کھوکھلا کر دے گا اور اجتماعی سلامتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔

کینیڈا نے پہلا قدم اٹھایا ہے، لیکن بوجھ صرف اوٹاوا پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر مغرب کا معیارِ انصاف ’’چنیدہ‘‘ رہا—کچھ ممالک کو دہشت گردی پر سزا اور بھارت جیسے اتحادیوں کو چھوٹ—تو اس سے بھارت کے یہ ہائبرڈ نیٹ ورکس مزید طاقت پکڑیں گے۔ نئی دہلی کو اس کے دوغلے کھیل پر جوابدہ بنانا اب صرف خطے کی ضرورت نہیں بلکہ عالمی ذمہ داری ہے۔

بالآخر، بشنوئی کو دہشت گرد قرار دینا صرف ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سامنے آئینہ رکھنے کے مترادف ہے۔ اور اس آئینے میں دکھائی دینے والا عکس ایک محصور ملک کا نہیں بلکہ ایسا ملک ہے جو دوسروں کو محصور کرتا ہے۔ جب تک احتساب، چھوٹ کی جگہ نہیں لے گا، بھارت کے یہ پراکسی نیٹ ورکس عالمی امن کے نازک ڈھانچے کو مسلسل کمزور کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments Box