تحریر؛ نعمان احمد دہلوی
پاکستان کی معیشت حال ہی میں ایک نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے، جہاں متعدد عالمی سطح کی کمپنیاں ملک چھوڑنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی نے اکتوبر 2025 میں پاکستان میں اپنی پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس رجحان کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس سے پہلے یامہا، کیریم، یوبر، شیل، بائر اور ایلی لیلی جیسی کمپنیاں بھی پاکستان سے نکل چکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق، گزشتہ تین سالوں میں درجنوں عالمی کمپنیاں پاکستان چھوڑ گئی ہیں، جو معاشی عدم استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ انخلا نہ صرف روزگار کے مواقع کم کر رہا ہے بلکہ سرمایہ کاری کی رغبت بھی ختم کر رہا ہے۔
سب سے بڑی وجہ معاشی عدم استحکام ہے، خاص طور پر کرنسی کی اتار چڑھاؤ اور منافع کی منتقلی پر پابندیاں۔ پاکستانی روپہ کی قدر میں مسلسل کمی نے درآمد شدہ سامان کی لاگت بڑھا دی ہے، جس سے کمپنیوں کی پیداواری لاگت آسمان چھو لینے لگی ہے۔ مثال کے طور پر، درآمد کی پابندیوں کی وجہ سے خام مال کی دستیابی مشکل ہو گئی ہے، جو مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، منافع کی واپسی پر بھی سخت ضوابط ہیں، جو کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے روکتے ہیں۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق، “کرنسی کی اتار چڑھاؤ اور منافع کی منتقلی کی رکاوٹیں ایسی کمپنیوں کو مجبور کر رہی ہیں جو پاکستان کو چھوڑنے پر غور کریں۔” شیل جیسی آئل کمپنیاں بھی اسی وجہ سے نکل گئیں، کیونکہ انہیں اپنے منافع کی واپسی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری اہم وجہ ٹیکس پالیسیوں میں غیر یقینی اور کارپوریٹ ٹیکس میں اضافہ ہے۔ 2024 میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں اضافے نے ملٹی نیشنل کمپنیوں پر دباؤ بڑھا دیا، جس کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ کر گئیں۔ ریڈٹ پر ایک بحث میں شرکاء نے کہا کہ “یہ کمپنیاں پاکستان کو کچھ واپس نہیں دے رہی تھیں، لیکن ٹیکس ہائیک کی وجہ سے ان کا انخلا ناگزیر ہو گیا۔” اس کے علاوہ، ریگولیٹری ڈیلے بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ سخت ضابطے اور بیوروکریسی کی وجہ سے پروجیکٹس میں تاخیر ہوتی ہے، جو کمپنیوں کو مایوس کر دیتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، “سخت ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے سیکٹر مخصوص کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔”
سیاسی عدم استحکام بھی اس رجحان کو ہوا دے رہا ہے۔ 2024 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے کاروباری ماحول مزید غیر یقینی ہو گیا ہے۔ پولیس اور معاشی پالیسیوں میں بار بار تبدیلیاں کمپنیوں کو خوفزدہ کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، مائیکروسافٹ نے 2025 میں پاکستان سے نکلنے کا اعلان کیا، جو ٹیکنالوجی سیکٹر کی بڑی ضرب ہے۔ اسی طرح، یوبر اور کیریم جیسی رائیڈ شیئرنگ کمپنیاں بھی سیاسی دباؤ اور ریگولیٹری مسائل کی وجہ سے پاکستان چھوڑ گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی انتشار معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جو سرمایہ کاروں کی رغبت ختم کر دیتا ہے۔
علاوہ ازیں، عالمی ری سٹرکچرنگ بھی ایک عنصر ہے۔ کئی کمپنیاں اپنے آپریشنز کو اعلیٰ مارجن والے علاقوں کی طرف منتقل کر رہی ہیں، جیسے مائع قدرتی گیس (ایل این جی)۔
بائر نے 2022 سے 2024 تک پاکستان میں فارماسیوٹیکل مارکیٹ سے تدریجی انخلا کیا، جبکہ ایلی لیلی نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ یہ رجحان 2024 اور 2025 میں تیز ہوا، جہاں کم از کم 20 بڑی کمپنیاں پاکستان سے نکل چکی ہیں۔
اس انخلا کے اثرات سنگین ہیں۔ ہزاروں نوکریاں ختم ہو رہی ہیں، جو بے روزگاری کو بڑھا رہی ہیں۔ پی اینڈ جی کے انخلا سے ہنڈردز آف ملازمین متاثر ہوں گے، جو خاندانوں کی معیشت کو برباد کر دے گا۔ معیشت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے، کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے اور ٹیکس ریونیو متاثر ہو رہا ہے۔
حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے چاہییں۔ سب سے پہلے، کرنسی کی استحکام اور منافع کی منتقلی کو آسان بنانا ضروری ہے۔ ٹیکس پالیسیوں میں شفافیت لائی جائے اور بیوروکریسی کو کم کیا جائے۔ سیاسی استحکام کے لیے تمام فریقین کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) کو مزید فروغ دے کر نئی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی معیشت مزید بڑے بحران میں پھنس سکتی ہے۔
آخر میں، یہ انخلا پاکستان کے لیے ایک وارننگ ہے کہ معاشی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ عالمی کمپنیاں نئی مارکیٹس کی تلاش میں ہیں، اور پاکستان کو اپنے آپ کو ان کے لیے پرکشش بنانا ہوگا۔ اگر ہم اب بھی سوئیں رہے تو مواقع ہاتھ سے نکل جائیں گے،
اللہ پاک ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کو معاشی استحکام نصیب فرمائے، آمین۔
سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں
Facebook Comments Box