تحریر؛ نعمان احمد
تحریک پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عظیم جدوجہد تھی جس کا مقصد ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جہاں وہ اپنے مذہبی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کو تحفظ دے سکیں۔ اس تحریک میں مختلف طبقات نے اپنا کردار ادا کیا، لیکن علماء کا کردار نہایت اہم اور فیصلہ کن رہا۔ علماء نے نہ صرف دینی رہنمائی فراہم کی بلکہ عوام کو ایک نظریاتی بنیاد پر متحد کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اسلامی تشخص کو اجاگر کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کو یہ شعور دیا کہ ان کی بقا اور ترقی ایک الگ وطن کے قیام میں مضمر ہے۔
تحریک پاکستان کے دوران علماء نے اسلامی نظریہ حیات کو تحریک کی بنیاد بنایا۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ برصغیر میں ہندو اکثریت کے زیر اثر رہتے ہوئے مسلمان اپنے مذہبی اور ثقافتی تشخص کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبدالحق جیسے جید علماء نے اپنی تقاریر، تحریروں اور فتاویٰ کے ذریعے عوام کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کا قیام اسلامی اصولوں کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کی اور اپنی دینی حیثیت سے تحریک کو تقویت دی۔
دیوبندی مکتب فکر کے علماء نے تحریک پاکستان کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ علماء، جیسے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر نے اپنی دینی ساکھ کو استعمال کرتے ہوئے عوام میں تحریک کے حق میں رائے عامہ ہموار کی۔ مولانا عثمانی صاحب نے 1945ء میں مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح کے ساتھ مل کر تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ انہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ مسلم لیگ کی حمایت اسلامی اصولوں کے مطابق ہے، جس سے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے تحفظات دور ہوئے۔
بریلوی مکتب فکر کے علماء نے بھی تحریک پاکستان کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور پیر جماعت علی شاہ جیسے علماء نے اپنی تقریروں اور دینی اجتماعات کے ذریعے عوام کو پاکستان کے قیام کی ضرورت سے آگاہ کیا۔ پیر جماعت علی شاہ نے اپنے مریدین کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دی، جس سے پنجاب اور دیگر علاقوں میں مسلم لیگ کو بھرپور حمایت ملی۔ بریلوی علماء کی عوامی سطح پر مقبولیت نے تحریک کو گھر گھر تک پہنچانے میں مدد کی۔
علماء نے مساجد، مدرسوں اور دینی اجتماعات کے ذریعے عوام کو تحریک پاکستان سے جوڑا۔ انہوں نے خطبات جمعہ، دینی درسگاہوں اور عوامی جلسوں میں پاکستان کے نظریے کو فروغ دیا۔ ان کی تقریروں میں اسلامی اتحاد، خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ پر زور دیا گیا۔ دیہی علاقوں میں جہاں خواندگی کی شرح کم تھی، علماء کی آواز نے عوام کو متاثر کیا۔ انہوں نے سادہ زبان میں لوگوں کو سمجھایا کہ پاکستان کا قیام ان کے مذہبی اور معاشی مسائل کا حل ہے۔
علماء نے نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کو بھی تحریک میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دینی تعلیم کے ذریعے خواتین کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کر تحریک میں حصہ لیں۔ مولانا عثمانی اور دیگر علماء نے خواتین کے جلسوں سے خطاب کیا اور انہیں ووٹنگ اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ اس سے مسلم خواتین کی سیاسی بیداری میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کے قیام کے بعد علماء نے نئی مملکت کے دستور اور قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے قرارداد مقاصد کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا، جس نے پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ بنانے کی بنیاد رکھی۔ علماء کی کوششوں سے پاکستان کا تشخص ایک اسلامی ریاست کے طور پر مضبوط ہوا۔
تحریک پاکستان میں علماء کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے نہ صرف نظریاتی رہنمائی فراہم کی بلکہ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ ان کی دینی ساکھ اور عوامی اثر و رسوخ نے تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے علماء نے اپنی اپنی جگہ سے تحریک کو مضبوط کیا اور پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ آج بھی ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ایک ایسی مملکت کی بنیاد رکھی جہاں مسلمان اپنے مذہبی اور ثقافتی تشخص کے ساتھ ترقی کر سکتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے اور پاکستان میں بسنے والے تمام علماء کی حفاظت فرمائے اور ان سے محبت اور عقیدت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریک پاکستان میں علماء کا کردار

Facebook Comments Box