“بی وائی سی کا اسلام آباد احتجاج: انسانی حقوق کا لبادہ یا عدلیہ پر دباؤ کی سازش؟”

تحریر۔عبداللہ بلوچ

بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) نے ایک بار پھر انسانی حقوق اور عورت کارڈ کے نام پر ریاست پاکستان کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کیا ہے۔ یہ احتجاج اب بلوچستان کے بجائے براہ راست وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منتقل ہو چکا ہے، جہاں ریاست کو بدنام کرنے اور عدالتی نظام کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی پرانا ہتھکنڈہ ہے جو بی وائی سی اور اس جیسے عناصر عرصہ دراز سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں: انسانی ہمدردی کے جذبات کو ابھارنا، میڈیا پر ہائپ پیدا کرنا، اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کرنا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بچے لاپتہ ہیں، مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کو کس نے لاپتہ کیا۔ ان کا رویہ ایسا ہے جیسے ریاست کو بلیک میل کرنے کے لیے ایک خود ساختہ بیانیہ کافی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ متعدد لاپتہ افراد بعد ازاں پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں جیسے بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے یا براس کے کیمپوں میں سرگرم پائے گئے۔ ان میں سے کئی نوجوان سرحد پار ٹریننگ لینے کے بعد ریاست پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جب سیکیورٹی فورسز ان عناصر کے خلاف آپریشن کرتی ہیں اور انہیں انجام تک پہنچاتی ہیں تو یہی اہلخانہ ان کی میتیں وصول کرتے ہیں اور ببانگ دہل انہیں اپنے لاپتہ افراد قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہی احتجاج کیا جاتا ہے، نعرے بازی کی جاتی ہے اور ریاست کو سفاک اور جابر ظاہر کیا جاتا ہے، حالانکہ سچ یہ ہے کہ یہ نوجوان قانون شکن تھے، دہشتگردی میں ملوث تھے اور ان کی ہلاکت ریاستی عملداری کے نفاذ کا حصہ تھی۔

یہ مظاہرین جو خود کو سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں، درحقیقت ایک خاص ایجنڈے کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ جب ٹائم میگزین کی کسی فہرست میں ان کے لیڈروں کا نام شامل ہوتا ہے تو اسے دنیا بھر میں فخر سے پھیلایا جاتا ہے، جب نوبل انعام کی خفیہ نامزدگی (جو کہ 50 سال تک راز میں رکھی جاتی ہے) کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو انہیں غیر مصدقہ معلومات کے ذریعے خبردار کر دیا جاتا ہے۔ مگر جب ان کے اپنے گھر کا کوئی فرد “لاپتہ” ہو جاتا ہے، تو نہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کہاں گیا، نہ ہی کوئی تحقیق کی جاتی ہے، اور فوراً الزام ریاستی اداروں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس دہری پالیسی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد انسانی حقوق نہیں بلکہ ریاست کو بدنام کرنا ہے۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان مظاہرین میں سے کسی نے بھی آج تک بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہوں کی مذمت نہیں کی، جنہوں نے نہتے مزدوروں، اساتذہ، پولیس افسران، اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ جب بھارت نے 7 مئی کو کھلم کھلا پاکستان پر سائبر حملے کیے اور مختلف محاذوں پر پاکستان کے داخلی استحکام کو نشانہ بنایا، تو ان میں سے کسی نے لب کشائی تک نہ کی۔ بلکہ کچھ نے تو سر عام کہا کہ ہم بھارت کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ واقعی امن کے علمبردار ہوتے تو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے عناصر کی مذمت کرتے، مگر وہ مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو ان کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔

ریاست پاکستان نے ان تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود بے مثال تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان مظاہرین کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دی گئی، آزادی سے پریس کلب کے سامنے بیٹھنے دیا گیا، اور کسی قسم کی طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا۔ مگر جب ان مظاہرین کو معلوم ہوا کہ بی وائی سی کے گرفتار رہنماؤں کے خلاف عدالتوں میں موجود شواہد اس قدر ٹھوس ہیں کہ بچاؤ ممکن نہیں، تو انہوں نے فوری طور پر حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اسلام آباد میں احتجاج کا نیا محاذ کھول دیا۔ یہ احتجاج کوئٹہ کی بجائے اسلام آباد منتقل کرنے کا مقصد نہ صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنا تھا بلکہ عدالتوں پر دباؤ ڈالنا بھی تھا۔

اسلام آباد میں ان کا ساتھ دینے والوں میں کچھ نامور صحافی، این جی اوز کے کارکن، اور خود ساختہ انسانی حقوق کے علمبردار شامل ہیں، جو ہر موقع پر ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں مگر کبھی دہشتگردوں کی مذمت نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں میں جب ڈیرہ بگٹی میں پولیس افسران اور سپاہیوں کو قتل کیا گیا، تو ان میں سے کسی نے ایک بیان تک جاری نہیں کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا احتجاج صرف ریاست کے خلاف ہوتا ہے، نہ کہ دہشتگردی کے خلاف۔ ان کی خاموشی بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔

بی وائی سی کی قیادت اور ان کے حمایتی جانتے ہیں کہ کوئٹہ میں احتجاج سے انہیں وہ توجہ نہیں ملے گی جو اسلام آباد میں مل سکتی ہے۔ کوئٹہ میں سیکیورٹی ادارے اور عدالتیں ان کے حربوں سے واقف ہو چکی ہیں۔ اسی لیے اب مقصد یہ ہے کہ قومی میڈیا، بین الاقوامی ادارے، اور عالمی طاقتیں ان کے بیانیے کو سنیں اور ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھائیں تاکہ ان کے گرفتار لیڈران کو بچایا جا سکے۔ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی یہ کوشش بذاتِ خود ایک ناقابلِ قبول اور مجرمانہ عمل ہے۔

ان مظاہرین کی طرف سے قومی شاہراہوں کی بندش، ریاستی اداروں کی کردار کشی، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی مسلسل کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ ان کا مقصد لاپتہ افراد کے لیے انصاف کا حصول نہیں بلکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا اور ملکی اداروں کو کمزور کرنا ہے۔ انہیں بیرونی فنڈنگ، مغربی حلقوں کی پشت پناہی، اور دشمن ممالک کی پراکسی سپورٹ حاصل ہے۔ یہ نہ صرف ریاست کے قانون کے خلاف ہیں بلکہ بلوچستان کی عوام کی امنگوں کے بھی دشمن ہیں۔

یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ان مظاہروں کا مقصد نہ تو انسانی حقوق کا تحفظ ہے، نہ ہی جمہوریت کی ترویج، بلکہ ریاست پاکستان کو دباؤ میں لا کر اپنی گرفتاریوں اور جرائم سے بچ نکلنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ان احتجاجوں کے ذریعے بلوچستان کی عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ریاست نے اس پر بروقت اور سخت ردعمل نہ دیا تو یہ کل کو ایک خطرناک نظیر بن سکتی ہے جس سے دیگر علیحدگی پسند عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی عدالتیں بی وائی سی کے گرفتار رہنماؤں کے خلاف دستیاب شواہد کی بنیاد پر فوری اور سخت فیصلے صادر کریں۔ قانون کی بالادستی قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے مظاہرین کو بھی فوری طور پر گرفتار کر کے بلوچستان حکومت کے حوالے کیا جانا چاہیے تاکہ عدالتی عمل مکمل سکون اور غیر جانبداری کے ساتھ انجام پا سکے۔ ریاست کو کسی دباؤ یا بلیک میلنگ کا شکار ہوئے بغیر، آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ بلوچستان اور پورے ملک میں امن، انصاف اور استحکام ممکن ہو سکے۔

Facebook Comments Box