سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کو 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔ یہ درخواست سپریم کورٹ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے سے متعلق ہے، جس میں عدالت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے خلاف وفاق اور دو صوبائی حکومتوں کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ میں 45 دن کے اندر ترمیم کر کے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا جائے، کیونکہ آزادانہ اپیل کا حق منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حصہ ہے۔
جواد ایس خواجہ نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا، جو عدالتی فیصلے کی تعمیل نہ کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، کیونکہ مقررہ مدت میں آرمی ایکٹ میں ترمیم نہیں کی گئی۔
یہ تنازع 9 مئی 2023 کے واقعات سے جڑا ہے، جب فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔ جواد ایس خواجہ نے پہلے بھی فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے متعدد درخواستیں دائر کی تھیں، جن میں شفاف ٹرائل اور بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا۔
مزید تفصیلات کے لیے، یہ معاملہ زیر سماعت ہے، اور تازہ ترین پیش رفت کے لیے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ یا معتبر خبر رساں اداروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
متعلقہ معلومات: سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023 کے میانوالی ہنگامہ آرائی کے مقدمے میں ملک احمد خان بھچر سمیت 51 ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، کیونکہ کوئی ملزم سماعت کے دوران پیش نہیں ہوا۔ یہ کیس بھی فوجی عدالتوں کے تناظر میں اہم ہے، کیونکہ اس میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔