سید عامر محمود کی کتاب ”ہنگام سفر” پرلطف اندوزتبصرہ
تبصرہ نگار: ظفر اقبال ظفر
سید عامر محمود کی کتاب ”ہنگام سفر” میں ان کے سفر کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات اور تجربات کو مختلف شہروں کے حوالے سے اس طرح سے بیان کیا گیا کہ قارئین ان کے سفر کو اپنے پاؤں تلے سے گزرتا محسوس کرنے لگتے ہیں۔کتاب کے ہر ورق کے ساتھ منظربھی پلٹ جاتا ہے مگر میں کئی بار آگے بڑھنے سے زیادہ پیچھے پلٹتا کہ محسوس کیے جانے والے منظر کا ٹھہر ٹھہر کر مزالیتا رہوں بغیر قدم اُٹھائے لطف اندوز سیر کروانے والی اس کتاب کے مصنف بتاتے ہیں کہ











انہوں نے لاہور سے بخارا اور سمرقند تک کا سفر بس اور ریل کے ذریعے طے کیا۔
اس سفر کے دوران انہیں پاکستان، ہندوستان اور وسطی ایشیا کے مسافروں سے ملاقات کا موقع ملا، جو اپنے سفر کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ سرحدوں پر امیگریشن اور کسٹم کے مسائل پیش آئے، اور مختلف زبانوں کے لوگوں سے بات چیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے سلطان احمد مسجد، آیا صوفیہ، اور گالاٹا برج کے قریب فش بریڈ کا لطف اٹھایا۔ مصنف نے شہر کی رونق، خوبصورتی اور اس کے قدیم و جدید پہلوؤں کا مشاہدہ کیااور کتاب میں اس لذت آمیز انداز میں بیان کیا کہ قاری تجسس میں ڈوبا مطالعے کی گہرایو ں میں اترتا چلا جاتا ہے۔
مصنف نے کیپاڈوشیا (گورمے) میں ہاٹ ایئر بیلون کی پرواز کا تجربہ کیا۔ انہوں نے طلوع آفتاب کے وقت آسمان میں سینکڑوں بیلونز کو بلند ہوتے دیکھا اور اس منظر کو ”جادوئی” قرار دیا۔ یہ علاقہ اپنی ”پریوں کی چمنیوں ” اور آتش فشاں پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

ایتھنز میں مصنف نے ایکروپولس اور قدیم یونانی مندروں کا دورہ کیا۔ انہوں نے شہر کی تاریخی اہمیت اور فن کو سراہا، جہاں ارسطو، افلاطون، اور سقراط جیسے فلسفیوں نے علم پھیلایا۔ انہوں نے ایتھنز کے تاریخی مقامات کے دورے میں فلی مارکیٹ اور یونانی کافی کا بھی لطف اٹھایاجیسے پڑھ کر قاری کا دل مقامات اور زبان ا ن سوغات کے ذائقے کو مچلتے ہیں۔ انہوں نے وینس میں گنڈولہ کی سواری کی اور سان مارکو پلازہ جیسے خوبصورت مقامات کا دورہ کیا۔روم کے قدیم ورثے کا مشاہد ہ سفر میں مصنف نے کولوزیئم اور پینتھین جیسے تاریخی مقامات کو دیکھا۔ انہوں نے ٹریوی فاؤنٹین پر سکہ پھینکنے کی روایت میں حصہ لیا اور لوور میوزیم کا بھی ذکر کیا فلورنس میں مصنف نے شہر کے رینسنس آرٹ اور فن تعمیر کی تعریف کی۔ انہوں نے آرنو دریا، پونتے وکیو، اور جھولتے مینار جیسے مقامات کو دیکھا۔اشبیلیہ کے سفر میں مصنف نے خیرالدا مینار، الکازار، اور پلازا دے اسپانا کو دیکھا، جو شہر کے اسلامی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے بیل فائٹ رنگ کا بھی ذکر کیا۔ قرطبہ میں مصنف نے مسجد قرطبہ کی زیارت کی، جو ان کے لیے ایک اہم اور دل کو چھو لینے والا منفردتجربہ تھا۔ انہوں نے شہر کے اسلامی تہذیب و ثقافت کی گہرائی کو محسوس کیااور کتاب کے زریعے قارئین کے دل ودماغ میں انڈھیل دیا۔
پراگ کو ”روشنیوں کا شہر” کہا گیا ہے۔ مصنف نے چارلس برج اور قدیم فلکیاتی گھڑی کی تعریف کی۔ انہیں رات کے وقت شہر کی خوبصورتی اور اس کے قدیم ورثے نے بہت متاثر کیا۔ایمسٹرڈیم میں مصنف نے سائیکلنگ کو شہری نقل و حمل کا ایک اہم حصہ پایا۔ انہوں نے دام سکوائر کا دورہ کیا اور شہر کے کئی چینلز اور خوبصورت گلیوں میں گھومے۔ پیرس کے سفر میں مصنف نے ایفل ٹاور کو دیکھا اور اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے شہر کی روشنیوں اور رومانوی ماحول کو سراہا، حالانکہ انہوں نے محسوس کیا کہ پیرس کو مکمل طور پر دیکھنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ سینٹ اینڈریوز اپنی یونیورسٹی اور گولف کورس کے لیے مشہور ہے۔ مصنف نے شہر کی پرسکون خوبصورتی اور اس کے تعلیمی ورثے کو سراہا۔اوسلو کو ایک خوبصورت اور سرسبز شہر کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جہاں بلند و بالا پہاڑ اور (فجورڈز) ہیں۔ مصنف نے شہر کی صفائی، منصوبہ بندی اور قدرتی دلکشی کی تعریف کی۔آئس لینڈ کے سفر کا سب سے اہم واقعہ ناردرن لائٹس کا مشاہدہ تھا۔ مصنف نے آبشاروں، گلیشیروں، گرم چشموں اور آتش فشاں پہاڑوں سمیت آئس لینڈ کے منفرد قدرتی مناظر کو سراہا۔
بحرین کے سفر کا ایک اہم پہلو قدیم دوستوں اور پیاروں سے ملاقات تھا۔ مصنف نے بحرین کی مہمان نوازی اور اپنے دوست امجد اسلام امجدکے ساتھ ایک اہم تقریب میں شرکت کا ذکر کیا۔ہر سفر نے مصنف کو نئے تجربات اور بصیرت سے روشناس کرایا، جس سے ان کی دنیا کی سمجھ میں اضافہ ہوا۔ یہ سفر ایک ایسے آئینہ کی طرح ہیں جو مصنف کی یادوں کو جگاتے اور انہیں زندگی کی خوبصورتی کو سراہنے کا موقع دیتے ہیں۔سید عامر محمود کے سفر کے مقاصد سید عامر محمود کی کتاب ”ہنگام سفر” میں مختلف پہلوؤں سے بیان کیے گئے ہیں۔
سید عامر محمود کا سفر ذاتی شوق و لطف ان کے اسکول کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ وہ سفر کرنے اور شہر شہر پھرنے کے شوقین ہیں۔ انہیں مختلف شہروں کے جادوئی رنگ و روپ اور راز دیکھنے میں خوشی اور لطف محسوس ہوتا ہے۔ ان کا یہ شوق ہی ان کے سفر کی بنیادی محرک قوت ہے۔ مصنف کا ایک اہم مقصد اپنے سفر کے دوران حاصل ہونے والے تجربات، مشاہدات اور یادوں کو قارئین کے ساتھ بانٹنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قارئین ان کی کتاب کے ذریعے دنیا کے مختلف شہروں کا مجازی سفر کر سکیں اور ان کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھ سکیں۔
داستان گوئی کے پیچھے مصنف کا مقصد ہے کہ وہ ہر شہر کی مختصر مگر سچی تاریخ فراہم کریں۔وہ مختلف شہروں میں لوگوں کے رہن سہن، زبانیں، آب و ہوا، معیشت اور معاشرت کی کیفیت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔اس کتاب کا ایک مقصد قارئین کی دنیا کے بارے میں سمجھ میں اضافہ کرنا اور انہیں نئی بصیرت فراہم کرنا ہے۔سید عامر محمود کا یہ سفرنامہ اردو ادب اور سفرنامے کی صنف میں دلچسپی کو بڑھانے کے لیے بھی لکھا گیا تھا۔ اس کا مقصد تعلیمی سوچ کو فروغ دینا اور سیکھنے کے ماحول کو بہتر بنانا بھی تھا۔
پیشہ ورانہ اور تحقیقی دلچسپی کے حامل سید عامر محمود کا تعلق تعلیم اور سماجی ترقی کے شعبے سے ہیں انہوں نے پاکستان اور وسطی ایشیا میں تعلیم کے مسائل پر وسیع تحقیق بھی کی ہے۔ اگرچہ کتاب میں ہر سفر کے لیے واضح طور پر پیشہ ورانہ مقصد بیان نہیں کیا گیا، لیکن ان کا یہ پس منظر ظاہر کرتا ہے کہ خاص طور پر وسطی ایشیا کے سفر جیسے بخارا اور سمرقند کے دورے میں ان کی علمی و تحقیقی دلچسپی بھی کارفرما رہی ہو گی، اور وہ شہروں کے ثقافتی و تعلیمی ورثے کو گہرائی سے پرکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔اس طرح سید عامر محمود کے سفر ایک کھلی کتاب کی مانند تھے، جہاں ہر ورق نئے مقامات کی کہانی، ثقافتوں کے رنگ اور ذاتی مشاہدات کے موتیوں سے مزین ہے، جس کا مقصد خود لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دنیا کے عجائبات سے روشناس کرانا ہے۔ہنگام سفر میں دنیا کے سولہ حیران کن مقامات کے منظر وں کی سینکڑوں جھلکیں دیکھا کر قارئین کو وہاں جانے کا شوق میں گرفتار کر دینے والے سید عامر محمود تعلیمی میدان میں انقلابی تبدلیاں رونما کرنے کی خدمات میں حکومت پاکستان کی جانب سے قیام پاکستان والے دن یعنی 14اگست 2023کو لاہور میں تمغہ امتیاز حاصل کرکے اُن لوگوں میں شامل ہو گئے جن کا ماتھا یہ پاک دھرتی ماں کی طرح چوماکر کہتی ہے مجھے تم پر فخر ہے میرے لال۔۔۔میرے کمزور بچوں کا خیال رکھنا۔
سیاح اور مسافر پرطاری ہونے والی کیفیت کے فرق کی عکاسی میں کہا گیا کہ مسافر اپنے سفر کے شروع میں اداس اور اختتام پر خوش ہوتا ہے جبکہ سیاح اپنے سفر کی ابتدا میں خوش اور اختتام پر اُداس ہوتا ہے۔ہنگام سفر بھی اک ایسی کتاب ہے جو قاری پر یہ کیفیت طاری کرتی ہے کہ اس کے مطالعے کی ابتدا خوش اور اختتام اُداس کرتا ہے۔
ہنگام سفر کے مسودے کو پڑھ کرخالد مسعود خان صاحب نے جو اظہار خیال کتابی تعارف کے ابتدائی صفات میں شامل کیا وہ متاثر کن ترجمانی کرتا ہے جس نے میرے جیسے رائٹر کو بھی حیرانی میں ڈال دیا اور سیدعامر محمود صاحب نے کتاب کے آخر تک اُس حیرانی سے نکلنے ہی نہیں دیا۔جہاں انہوں نے کتاب میں دیکھائے جانے والے منظروں پر اپنی آنکھوں کو اُن دوستوں کا مشکور قرار دیا جن کی کسی نا کسی طرح کی معاونت حسن کو دوبالا کیا تھا وہاں انہوں نے اُن اخراجات کا کھل کر زکر نہیں کیا جس کی وجہ سے تمام سفروں کو تکمیلی صورت ملی مگر مجھے اندازہ ہے کہ یہ غیر معمولی رقم ہے جس سے حاصل شدہ سفروں کے لطف کو کتاب کی معمولی رقم کے حوض قارئین کی پہنچ میں آسان بنادیا گیا ہے۔
ادب اور کتاب کو کھلے زہنوں کی فضا میں سانس لینے کے لیے قلم کی یہ حیات آفروز کاوشیں مسلط شدہ ٹیکنالوجی کے دور میں جہاد کا درجہ رکھتی ہیں۔