اسرائیلی اور اسرائیل نواز ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں؟

تحریر۔ نعیم اختر عدنان

اسرائیلی اور اس کے حامی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں؟ تحریر نعیم اختر عدنان
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا اہل فلسطین خصوصا اہل غزہ کے خلاف ظلم و زیادتی اور جبر و استبداد کا سلسلہ اسرائیل کے قیام سے ہی چلا آرہا ہے مگر اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے وحشیت اور درندگی کی ایک ایسی بدترین مثال قائم کی جس کو پیش کرنے سے انسانی تاریخ قاصر ہے۔ دنیا کے سامنے پہلی بار اسرائیل کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں عالم اسلام میں ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی و ہمدردی کے طور پر مسلم ممالک میں عوام نے اسرائیلی اور اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کے بایکاٹ کا بھی ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس ضمن میں ذہن میں یہ سوال یا اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ اسرائیل جیسے مظبوط ملک کو میرے بائکاٹ سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اس سوال کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جیسے قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ایسے ہی ہر ہر فرد کا اس بایکاٹ میں حصہ اہم ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً دو ارب مسلمان ہیں جو کہ تقریباً دنیا کی ایک چوتھائی ابادی بنتی ہے لہذا مسلمانوں کا مجموعی بایکاٹ دنیا کی معیشت پر ایک گہرا اور واضح اثر ڈال سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک فرد کی حیثیت سے ہمارا یہ بایکاٹ ہماری دینی و ایمانی غیرت و حمیت کا معاملہ ہے نہ کہ فقہی نقطہ نگاہ سے حرام و حلال کا۔ لہذا ہمیں مصنوعات کی کوالٹی اور اپنی پسند ناپسند پر سمجھوتہ کرنا چاہیے مگر معصوم فلسطینی بچوں کے خون پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ دشمن کی معاشی ناکہ بندی (economic blockade) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے ثابت ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے تجارتی راستے (economic route) کو مخدوش بناکر دشمن کو معاشی طور پر کمزور بنایا۔ لہذا اگر کچھ لوگ اس بائیکاٹ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے اس مشن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں تو ہمیں ان سے بچنا چاہیے اور اس کام کی دنیوی و اخروی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر اس کو جاری رکھنے اور مزید موثر بنانے کی بھرپور جہدوجہد جاری رکھنی چاہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *