تحریر؛ نعمان احمد
کراچی، پاکستان کا معاشی مرکز اور سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے، کروڑوں لوگوں کا گھر ہے۔ تاہم، اس شہر کو آلودہ پانی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے جو نہ صرف شہریوں کی صحت بلکہ معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ آلودہ پانی کے اس بحران کی متعدد وجوہات ہیں، اس کے نقصانات وسیع ہیں، اور اس کی ذمہ داری مختلف اداروں اور افراد پر عائد ہوتی ہے۔
کراچی میں آلودہ پانی کی بنیادی وجہ ناقص واٹر مینجمنٹ سسٹم ہے۔ شہر کے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB) کے پائپ لائنوں کا نظام فرسودہ اور ناقص ہے، جس کی وجہ سے صاف پانی کی سپلائی میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے۔ اکثر علاقوں میں پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اور ان کی مرمت بروقت نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ، صنعتی فضلہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ کراچی کی صنعتیں، خاص طور پر ٹیکسٹائل، کیمیکل اور چمڑے کی صنعتیں، اپنا زہریلا فضلہ بغیر علاج کے ندی نالوں اور سمندر میں پھینک دیتی ہیں۔ یہ زہریلا پانی زیر زمین پانی کے ذخائر کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔
مزید برآں، شہر میں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس اور پانی کی چوری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ واٹر مافیا ناجائز طور پر پانی کی سپلائی کو کنٹرول کرتا ہے، جس سے غریب علاقوں میں صاف پانی کی کمی ہوتی ہے۔ کچرے کے غیر مناسب انتظام اور کچی آبادیوں میں ناقص نکاسی آب کا نظام بھی پانی کی آلودگی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ برساتی پانی کے ساتھ گندگی اور کوڑا کرکٹ ندی نالوں میں شامل ہو کر پانی کو مزید آلودہ کرتا ہے۔
آلودہ پانی کے نقصانات صحت، معیشت اور ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ سب سے سنگین اثر انسانی صحت پر پڑتا ہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، پیچش، اور دیگر پانی سے پھیلنے والی بیماریاں عام ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد آلودہ پانی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں اور بوڑھوں پر اس کے اثرات زیادہ شدید ہیں، کیونکہ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔
معاشی طور پر، آلودہ پانی صحت کے اخراجات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لوگوں کو علاج کے لیے بھاری اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں، جو غریب خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آلودہ پانی زراعت اور ماہی پروری کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کراچی کے قریبی سمندری علاقوں میں زہریلے مادوں کی موجودگی کی وجہ سے مچھلیوں کی تعداد اور معیار میں کمی آئی ہے، جو ماہی گیروں کی روزی روٹی کو متاثر کرتی ہے۔
ماحولیاتی نقصانات بھی ناقابل تلافی ہیں۔ آلودہ پانی سمندری حیات اور ایکو سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔ کراچی کے ساحلوں پر آلودگی کی وجہ سے سمندری پرندوں اور دیگر جانداروں کی زندگی خطرے میں ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر کی آلودگی طویل مدتی ماحولیاتی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
آلودہ پانی کے بحران کی ذمہ داری صرف ایک ادارے یا فرد پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ ان اداروں میں بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور وسائل کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ صنعتیں بھی اپنے فضلے کو بغیر علاج کے پھینکنے کی ذمہ دار ہیں۔ ان کے خلاف سخت قانون نافذ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داری سے بچتے ہیں۔
عام شہری بھی اس میں حصہ دار ہیں۔ کوڑا کرکٹ کو ندی نالوں میں پھینکنا، پانی کا غیر ضروری استعمال، اور غیر قانونی واٹر کنکشنز اس مسئلے کو بڑھاتے ہیں۔ واٹر مافیا کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے حکومتی اداروں کی ناکامی بھی ایک اہم عنصر ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نظام کو جدید بنانے اور اس کی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعتی فضلے کے علاج کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا قیام ضروری ہے۔ شہریوں میں پانی کے تحفظ اور صفائی کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے۔ واٹر مافیا کے خلاف سخت کارروائی اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خاتمے کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جائیں۔
آخر میں، کراچی میں آلودہ پانی کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ حکومت، اداروں، صنعتوں اور شہریوں کو مل کر اس بحران سے نمٹنا ہوگا تاکہ کراچی کے لوگوں کو صاف پانی میسر ہو اور شہر کا ماحولیاتی توازن بحال ہو۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین