پروٹوکول کلچر اور ریاستی اداروں کی تباہی

تحریر۔ڈاکٹر اسد رضا

افسر شاہی یا بیوروکریسی کسی بھی ریاست کے نظم و نسق کا ایک لازمی ستون اور انتظامی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اس کا اصل مقصد ریاستی معاملات کو قانون اور اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے شفاف اور منظم انداز میں چلانا، پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا اور عوام کو بہتر سے بہتر خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ایک دیانت دار، غیر جانبدار اور عوام دوست بیوروکریٹ ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں افسر شاہی کا حقیقی کردار اس تصور سے مختلف نظر آتا ہے۔

جب کوئی شخص بیوروکریسی کے کسی اونچے عہدے پر پہنچتا ہے تو اس کے رویے میں ایک عجیب قسم کی برتری، غرور اور فوقیت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ جو عوام کا خادم ہونے کا دعویدار ہوتا ہے، خود کو عوام پر حکمرانی کا حقدار سمجھنے لگتا ہے۔ پروٹوکول، اختیارات کے مظاہرے اور دولت کی ہوس اس کی شخصیت پر غالب آ جاتی ہے اور یوں عوام اور افسر شاہی کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔

اقتدار اور اختیار کی خواہش انسانی جبلت میں شامل ہے۔ جب کسی شخص کے ایک دستخط سے کسی کی تقدیر بدل سکتی ہو یا اس کے حکم سے درجنوں افراد حرکت میں آ سکتے ہوں تو اس کے اندر دوسروں پر فوقیت اور برتری کا احساس شدت اختیار کر لیتا ہے۔ یہی احساس رفتہ رفتہ ایک فرعونی نفسیات میں بدل جاتا ہے اور وہ شخص خود کو عوام کا خادم نہیں بلکہ ان پر حکمرانی کا مستحق تصور کرنے لگتا ہے۔ نطشے نے کہا تھا کہ طاقت کی خواہش ہی تمام انسانی کمزوریوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔

اس طاقت کی خواہش فرد کی فطرت کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس معاشرتی اور معاشی نظام کی دین بھی ہے جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں معاشی ناہمواریوں کی گہری خلیج موجود ہے۔ ایک طرف طاقتور اور صاحبِ وسائل طبقہ ہے جو دولت اور اختیارات سے مالا مال ہے اور دوسری طرف عوام کی اکثریت ہے جو بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ جب کوئی شخص افسر شاہی کا حصہ بنتا ہے تو وہ اپنی طاقت اور حیثیت کو منوانے اور طبقاتی برتری کے اظہار کے لیے پروٹوکول اور شاہانہ انداز کو اپنا لیتا ہے۔

یورپ، جاپان اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بیوروکریٹ عوام کے درمیان عام انسان کی طرح رہتے ہیں۔ دفاتر میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، اپنی فائلیں اور سامان خود سنبھالتے ہیں اور عوام کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سقراط کا قول ہے کہ جس حکمران یا افسر میں عاجزی نہ ہو وہ کبھی انصاف نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں چھوٹے درجے کے افسر بھی عوام کے لیے رکاوٹ بن جاتے ہیں، ان کے قافلے عوام کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں اور سڑکوں پر ہٹو بچو کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔

انگریز دور کے بیوروکریسی اسٹائل نے برصغیر کے عوام کو محکوم بنانے کے لیے جو رویے اختیار کیے تھے، وہی آج بھی قائم ہیں۔ ماکیاویلی نے کہا تھا کہ جس حکمران کی طاقت اس کے خوف پر قائم ہو وہ دیرپا نہیں ہوتی کیونکہ خوف دلوں کو قید نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے بیوروکریٹ خوف پیدا تو کر سکتے ہیں مگر دلوں میں عزت نہیں کما سکتے۔

اس رویے کا ایک اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ ورکنگ ریلیشن شپ متاثر ہوتا ہے اور ریاست کی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ احتساب کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث بدعنوان عناصر کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ مونٹیسکیو نے کہا تھا کہ جب اختیارات پر پابندیاں ختم ہو جائیں تو ظلم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں احتساب کا عمل محض رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے جس کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ اسی لیے بیوروکریسی میں بدعنوانی، اقربا پروری اور طاقت کے غلط استعمال کو فروغ ملتا ہے۔ اس صورتحال میں معاشرے میں عدم اعتماد، نفرت اور بدگمانی بڑھتی ہے اور ریاستی ادارے کمزور ہو جاتے ہیں۔

اس صورت حال کا حل ایک ہمہ جہتی حکمت عملی میں پوشیدہ ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ احتساب کا ایسا نظام قائم کرے جو طاقتور طبقے کو بھی جوابدہ بنائے اور بدعنوان عناصر کو مثالی سزائیں دے تاکہ دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنیں۔ افلاطون کا قول ہے کہ ایک ریاست اسی وقت مثالی بنتی ہے جب اس کے نگہبان خود قانون کے غلام ہوں۔ بیوروکریسی کی تربیت جدید خطوط پر کی جائے جہاں انہیں عوام دوست رویوں، شفافیت اور خدمت کا درس دیا جائے۔ ان کے نصاب میں ایسے ماڈلز شامل کیے جائیں جو انہیں عاجزی اور انکساری کا سبق دیں۔ بینکنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن جیسے شعبے جہاں اعلیٰ افسران بغیر کسی پروٹوکول کے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، سرکاری اداروں کے لیے بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر عزت اور وقار کے پیمانوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا کہ اصل عزت دولت، پروٹوکول یا اختیارات سے نہیں بلکہ دیانت، خلوص اور خدمت سے ملتی ہے۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جس شخص کی عزت اس کے کردار سے نہ ہو وہ عزت کے لائق ہی نہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بدعنوان عناصر کو بے نقاب کرنا، عوام کو ان کے حقوق کا شعور دینا اور اداروں پر دباؤ ڈالنا کہ وہ شفافیت اور دیانت داری کو فروغ دیں، یہ سب ضروری اقدامات ہیں۔

جب تک ہم طاقت اور دولت کو عزت کا پیمانہ سمجھتے رہیں گے اس وقت تک افسر شاہی اور بیوروکریسی کا ذہن درست نہیں ہو سکتا۔ ہمیں دیانت، خدمت اور خلوص کو اصل وقار کا درجہ دینا ہو گا تاکہ ہم ایک شفاف، منصف اور فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ سکیں جہاں افسر شاہی عوام کی خادم ہو، حکمران نہیں۔ انقلابی تبدیلی اس وقت ہی آئے گی جب طاقت اور دولت کے بجائے خدمت اور دیانت کو وقار حاصل ہو گا اور ریاست اپنے ہر شہری کو برابر سمجھے گی۔

ریاست کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی بیوروکریسی اپنے فرائض کو عوامی خدمت سمجھے نہ کہ ذاتی وقار کا ذریعہ۔ مارکس نے کہا تھا کہ جب ادارے عوام سے دور ہو جائیں تو انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اگر ہم نے بروقت اس نظام کو درست نہ کیا تو اس خلیج کو کم کرنا ممکن نہ رہے گا اور ریاست کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی جائیں گی۔

Facebook Comments Box