بی بی سی کا نقاب اُتر چکا: غزہ سے پاکستان تک جانبداری کی داستان

تحریر۔طارق خان ترین

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی)، جو برسوں سے غیرجانبداری اور منصفانہ صحافت کا علمبردار سمجھا جاتا رہا ہے، آج اس کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ اب یہ ادارہ انصاف کے لبادے میں لپٹا ہوا تعصب اور دوغلا پن پھیلانے والا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال اسرائیل کے مظالم اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر اس کی رپورٹنگ ہے۔ سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ (CfMM) کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 42,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں، مگر بی بی سی نے اپنے طویل رپورٹس اور نشریات میں اسرائیلی اقدامات کو دفاعی قرار دے کر پیش کیا جبکہ فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کو یا تو نظرانداز کیا یا ان کی شدت کو کم کر کے دکھایا۔ ایک شرمناک حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی نے اسرائیلی ہلاکتوں کو فی ہلاکت 33 گنا زیادہ کوریج دی جبکہ فلسطینی شہداء کی ہلاکتوں کو محض اعداد و شمار تک محدود رکھا۔

CfMM کی 3,873 آن لائن مضامین اور 32,000 نشریاتی مواد پر مبنی تفصیلی تجزیہ نے بی بی سی کی جانبداری کو کھول کر رکھ دیا۔ اسرائیلی متاثرین کے لیے “قتل عام”، “ذبح” اور “بربریت” جیسے جذباتی الفاظ بار بار استعمال کیے گئے جبکہ ہزاروں شہید فلسطینیوں کے لیے ایسے الفاظ ناپید رہے۔ یہ مظالم کی ایک ایسی درجہ بندی تھی جس نے بی بی سی کے دعوائے غیرجانبداری کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس سے بڑھ کر، بی بی سی نے اسرائیلی مظالم کو “نسلی امتیاز” (Apartheid) قرار دینے سے بھی گریز کیا، حالانکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے ادارے اسرائیل کو نسلی امتیاز پر مبنی ریاست قرار دے چکے ہیں۔ یوں بی بی سی مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالم کا آلہ کار بن کر ابھرا۔

یہ تعصب صرف الفاظ کے چناؤ تک محدود نہیں رہا بلکہ بی بی سی کی رپورٹنگ کے ذرائع بھی یکطرفہ رہے۔ CfMM کی رپورٹ کے مطابق بی بی سی نے اسرائیلی ذرائع اور حکام کو فلسطینیوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ کوریج دی۔ نشریاتی رپورٹنگ میں اسرائیلی متاثرین کے چہرے اور نام دکھائے گئے جبکہ فلسطینی شہداء کو گمنامی کی تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ اس جانبدار بیانیے کے ذریعے بی بی سی نے محض خبر نہیں دی بلکہ عالمی رائے عامہ کو اسرائیلی مظالم کے حق میں ہموار کیا اور فلسطینیوں کے مصائب کو غیر اہم بنا دیا۔

یہی بیانیہ بی بی سی نے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی رپورٹنگ میں اختیار کیا۔ جس طرح غزہ میں فلسطینیوں کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا، اسی طرح پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف بے مثال قربانیوں کو بھی بی بی سی کی رپورٹنگ میں جگہ نہ مل سکی۔ پاکستان نے فتنۂ خوارج یعنی تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور فتنۂ ہندوستان یعنی بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے ایس جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف جنگ میں 90,000 سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے، لیکن بی بی سی نے ان دہشتگردوں کو مظلوم بنا کر پیش کیا اور ریاست پاکستان کو ظالم۔

بی بی سی نے بارہا بی وائی سی جیسے سیاسی محاذوں کو “انسانی حقوق کے علمبردار” کے طور پر پیش کیا جبکہ ان کے دہشتگرد گروہوں سے تعلقات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔ جیسے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی شہادت کو بی بی سی کے کیمرے نے نظر انداز کیا، ویسے ہی پاکستان کے شہید فوجی، پولیس اہلکار، مزدور اور اساتذہ بی بی سی کی خبروں میں محض اعداد و شمار بن کر رہ گئے۔ جب بھی پاکستان نے بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کیں تو بی بی سی کی سرخیاں ریاستی جبر اور کریک ڈاؤن کے الفاظ سے بھری ہوتی تھیں، مگر دہشتگردی کی تاریخ اور پس منظر کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔

بی بی سی کا یہ تعصب اس کے الفاظ اور زاویہ نگاہ تک محدود نہیں بلکہ اس کی خاموشی میں بھی چھپا ہے۔ بی بی سی نے کبھی بھارت کی جانب سے بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے ایس جیسے گروہوں کی سرپرستی پر تحقیقی رپورٹ پیش نہیں کی، حالانکہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی فورمز پر ثبوت پیش کیے جا چکے ہیں۔ یہ خاموشی بذات خود ایک بیانیہ تشکیل دیتی ہے کہ پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے جبکہ درحقیقت یہ دہشتگردی بیرونی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آزاد صحافت ریاست پر تنقید کا حق رکھتی ہے، لیکن بی بی سی کی تنقید یکطرفہ اور متعصب ہے۔ جب اسرائیل فلسطینیوں پر بمباری کرتا ہے تو بی بی سی اسے دفاعی کارروائی کہتا ہے، اور جب پاکستان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اسے ریاستی جبر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ صحافت نہیں، بلکہ پروپیگنڈا ہے جو ریاست دشمن عناصر کو حوصلہ دیتا ہے اور پاکستان کے شہداء کی قربانیوں کو گمنام کر دیتا ہے۔

پاکستان کی افواج اور سیکیورٹی ادارے اس طویل جنگ میں بے مثال قربانیاں دے چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں افسران اور جوان شہید ہو چکے ہیں۔ فرنٹیئر کور اور پولیس کے اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں تاکہ پاکستان میں امن قائم ہو سکے۔ مگر بی بی سی کی نظر میں ان کی قربانیاں شاید کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان کی رپورٹنگ میں دہشتگردوں کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور پاکستانی شہداء کی کہانی پس منظر میں دھندلا دی جاتی ہے۔

بی بی سی محض خاموش رہ کر ہی نہیں بلکہ دہشتگردوں اور ان کے ہمدردوں کو پلیٹ فارم دے کر ان کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ بی وائی سی جیسے گروہوں کو انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کر کے بی بی سی ان دہشتگردوں کو اخلاقی تحفظ فراہم کرتا ہے جنہوں نے پاکستان کو توڑنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ یوں بی بی سی پاکستان کے خلاف نفسیاتی اور معلوماتی جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔

غزہ کی طرح پاکستان میں بھی بی بی سی کی رپورٹنگ میں دہشتگردوں کو چہرہ اور آواز دی جاتی ہے جبکہ ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم شہریوں کی شناخت مٹا دی جاتی ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچے، بلوچستان میں شہید مزدور، اور ڈیوٹی پر مارے گئے پولیس اہلکار بی بی سی کی خبروں میں شاید کبھی نام نہیں پاتے۔ مگر احتجاج کرنے والے علیحدگی پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کی کہانیاں ضرور سنائی جاتی ہیں۔

یہ حیرت کی بات نہیں کہ بی بی سی نے اپنی سنسنی خیزی اور دوغلے معیار کی خاطر ہمیشہ پاکستان کے دشمنوں کا بیانیہ ہی آگے بڑھایا۔ جب پاکستان ریاست دشمنوں کی حقیقت بے نقاب کرتا ہے تو بی بی سی شک و شبہات پیدا کرتا ہے، مگر جب دشمن ممالک پاکستان پر الزام لگاتے ہیں تو بی بی سی انہیں بلا تحقیق نشر کرتا ہے۔

بی بی سی کی اس بددیانتی کے اثرات صرف صحافتی دائرے تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے موقف اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ رپورٹس عالمی پالیسی، امداد، اور سفارتی تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جو لوگ امن کے حقیقی علمبردار ہیں، انہیں بی بی سی کی جانبداری پر سوال اٹھانا چاہیے کہ آخر بی بی سی ہر بار انصاف کے برعکس موقف کیوں اپناتا ہے؟

اگر دنیا بی بی سی کی غزہ کے حوالے سے متعصب رپورٹنگ پر احتساب چاہتی ہے، تو یہی اصول پاکستان کی رپورٹنگ پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس دوہرے معیار کو چیلنج کیا جائے اور سچائی کو تعصب پر غالب کیا جائے۔ پاکستان کی قربانیوں کو مزید بی بی سی کے متعصب قلم کی نذر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *