بھنور آنے کوہے اے اہلِ کشتی ناخداچن لیں

دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں،اس میں اہلِ دانش بالخصوص اہل اختیار واقتدارکوجہاں دنیا پرنظررکھنے کی ضرورت ہے وہاں ہی ملک کے اندرونی حالات پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملک کے اندر بعض عالمی طاقتوں کے زیرِ سائیہ چلنے والے سیاسی،سماجی اورلسانی وعلاقائی بیانیے جوبظاہرعوامی شعورواظہارِ رائے کی آزادی دکھتے ہیں۔جبکہ وہ ایک فکری ناسوربنتا جارہا ہے۔جواندرہی اندرمذہبی اختلافات، سیاسی بے راہ روی،قوم کے اندرنفرت اورانتشار جیسی برائیاں بے خوف ہوکرپھیلارہاہے۔جوعوام اورریاست کے درمیان نفرت،علاقوں اورزبانوں کے درمیان نفرت،سیاسی اختلافات کے ذریعے ملکی ساکھ کو داوپرلگانا،ملک کے اندرونی سیاسی مخالفت کوعالمی فورم پر اٹھانا،بیرونی دنیا کو پاکستان پرپابندیوں کے لیے درخواست کرنا،بیرونی اداروں کو پاکستان کوقرض دینے سے روکنا،معاہدات کرنے والوں کو پاکستان آنے پرملک کے اندرافراتفری پھیلانا۔ملک کے اندر سیاسی احتجاجوں کے دوران توڑ پھوڑ کرنا،حتیٰ کہ ملک کی حفاظت کے ضامن ایک ایسے ادارے جس سے کسی کوکوئی گلہ ضرور ہوسکتا ہے، لیکن اس کی بقاکے لیے جہاں قوم اپنا خون پسینہ خرچ کررہی ہے وہاں ہی اس کی عزت کے لیے اپنی تمام ترتوانائیاں بھی خرچ کردیتی ہے۔ اس ادارے کے ہرشعبے پر ایک منظم حملہ کیا گیا،اوراس میں توڑپھوڑکی گئی۔لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ جس ادارے کے خلاف بات کرنا جرم ہے اس پرحملہ کرنے والے ابھی تک کسی قابلِ ذکرسزامیں نہ آسکے۔اوراس رواداری سے فایدہ اٹھاتے ہوے،اس طرح کے کئی لوگ اورکئی طرح کی قومی وعوامی کمیٹیاں عمل میں آچکی ہیں، جوریاست کے اندر حقوق کے نام پراحتجاج وجلسے کرنے کے دوران ملک اورقوم میں نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں خاص کرفوج اورحکومت کے خلاف اس قدر زہر آلود پروپیگنڈاکیا جاتاہے، جس سے نوخیزذہن ملک سے آزادی کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔فوج نے جس طرح بیرونی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے، ایسے ہی ضروری ہے کہ وہ اندرونی خلفشاریوں کو بھی اسی طاقت اور سرعت کے ساتھ نپٹے،ورنہ کل کہیں یہ ہماری ملک کی بیرونی سرحدوں پرجوسیسہ پلائی دیواریں ہیں،ان کے اندریہ نفرتوں کا تیزاب پھیلانے والے کہیں انہیں اندر سے بوسیدہ نہ کردیں،اور پھرایران کی طرح اندرسے ڈرون چلنے لگیں اوراعلیٰ عہدے داروں اورسائنس دانوں پرحملے ہونے لگیں،پھربہت کچھ نقصان کرکے اگر مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچابھی دیا گیا توکیا فایدہ ہوگا۔ انتشار کرنے والوں میں سے ساٹھ پرسنٹ ایسے لوگ ہیں جو آج بھی ہندوستان و پاکستان جنگ کے بارے میں کھلے عام یہ کہتے ہیں، کہ ان کی جنگ کب ہوئی ہے، یہ سب ڈرامہ تھا۔لہذاقوم کے اندرنفرت اورملکی سالمیت کے خلاف ذہن سازی کرنے والوں کوجلداز جلدعالمی قوانین کے مطابق سزائیں دے کرعوام کے اندرملکی سلامتی اوربھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔حکومتِ وقت سیاسی اختلافات جوملک کی قیمت پرکررہے ہیں ان سے رواداری نہیں قانون کے ساتھ نپٹے۔ ورنہ ملک جس انارکی میں دھنستاجارہا ہے اس سے نکلنامشکل ہوگا،اب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ خودجنگ لڑنامشکل ہے،لہذاعالمی سازشی جنگوں پرخرچ کرنے کے بجائے اندرونی انتشاروں پرخرچ کررہے ہیں،اورڈیجیٹل ذرائع نے اس مقصد کے لیے اسانیاں پیداکردی ہیں،سوشل میڈیا سے بلاروک ٹوک ڈالروصول ہونا،نفرتاورجھوٹ کو پھیلانے کاآسان ذریعہ ہے۔جس کوروکناتوشاید ممکن نہیں کہ لیکن پھربھی قومی اداروں کواپنی پوری توجہ سے ان راستوں کو بندکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اورسیاسی اسمبلی ممبران کو بھی چاہیے کہ ملک ہے تووہ ہیں،لہذاجولوگ ملک وقوم کوتوڑنے میں لگے ہوے ہیں،ان کیلیے کوئی نرم گوشہ نہ رکھیں،اسمبلی فلورپرقومی اورملکی مسائل پربات کریں ناکہ اپنی اپنی پارٹیوں کے ایجنڈے چلائیں۔ کیاالیکشن جیت کر آنے والاہر فرد اسمبلی میں صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ اپنے من کی مرضی اسمبلی کے فورم پرپوری کرے گا،جیسے ان دنوں جمشید دستی نے اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن بینچوں کے سامنے سجدے کئیے،کس کو کئیے یہ ابھی واضح نہیں،کیا ایسے ممبرکی اسمبلی رکنیت معطل نہیں کی جاسکتی،لیکن حکومت بھی اس چوہے بلی کے کھیل میں برابرکی شریک ہے، یہاں ملک وقوم کی نہیں سب کسی کواپنی اپنی خواہشات کی پڑی ہے۔لہذاقوم کوچاہیے کہ وہ نواز،عمران،زرداری کے سحرسے نکلے،اورملک اورقوم کے مفادمیں متحدہوکرپاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ،کانعرہ لگا کرملک میں نفاذِ اسلام کا یک نکاتی مطالبہ پیش کردے،اورتمام مذہبی اورسیاسی بیانیے پسِ پشت ڈال کرصرف اس بات پرڈٹ جائیں کہ پاکستان کے اندرصرف اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں اورفی الفورکیے جائیں۔جب تک اسلامی قوانین کا نٖفاذ نہیں ہوتا، کسی بھی سیاسی اورمذہبی بیانیے پرنہ چلیں۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ یہ سب جوعالمی ایجنڈے دائیں اوربائیں بازومیں لیے پھرتے ہیں، یہ تمہیں بھنورمیں پھنساکرخودکنارے بیٹھ جائیں،اورتماشہ دیکھتے رہیں،جس طرح سوات میں پھنسے ہووں کی ویڈیوزتوبن گئیں لیکن انہیں کسی نے بچانے کی کوشش نہ کی۔بقولِ ساغرؔصدیقی،”بھنورآنے کو ہے اے اہلِ کشتی،ناخداچن لیں۔چٹانوں سے جوٹکرائے وہ ساحل آشنا چن لیں۔زمانہ کہہ رہا ہے میں نئی کروٹ بدلتا ہوں۔انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے راہنما چن لیں۔“اللہ تعالیٰ پاکستان کو جس طرح بیرونی معاملات میں کامیابیاں اورعزتیں عطافرمارہا ہے،ایسے ہی اللہ تعالیٰ اسے اندرونی طورپربھی نظامِ اسلام کے تابع فرما دے،آمین۔وماعلی الا البلاغ۔

Facebook Comments Box