تحریر: ظفر اقبال ظفر
زندگی کاوہ وقت بہت پیچھے گزر چکا ہے جب دماغ اپنی جوانی میں تھااورفقط پڑھنا ہی حفظ ہو جانے جیسا ہوتا تھا اب میں قوی حافظے کا مالک نہیں رہا اکثر بھول جاتا ہوں جیسے کپڑوں میں روپے بھول جانا رات کو کیا کھایا تھا کسی سے کیا کہا تھا کس سے ملا تھا اپنا موبائل فون چابیاں اور دیگر اشیاء ہی نہیں بلکہ عمارت کاروبار بند کرکے لائٹیں بند کی ہیں یا نہیں بھول جاتا ہوں یادداشت کمزور ہونے کی وجہ سے اکثر کیے ہوئے کاموں کے نہ ہونے کے گمان میں مبتلا ہو جاتا ہوں اس بھولنے نے مجھے یقین کے فیصلے سے دُور کر دیا ہے۔
ایک دن میں گھر سے کچھ سامان لینے بازار آیا اور دوکان پر پہنچ کر یہ بھول گیا کہ میں لینے کیا آیا ہوں اس صورتحال نے مجھے ایسے گہرے دُکھ میں مبتلا کر دیا جیسے جسم کے کسی قیمتی اعضاء کے کھو جانے پر ہوتا ہے اکثرمیرے حق میں مددگارباتیں اور یادیں ضروری وقت پر حاضر نہیں ہوتیں۔نہیں بھول پاتا تو ماضی حال کی تلخ باتیں دُکھ زیادتی مصیبت پریشانی پچھتاؤانقصان بدسلوکی بد اخلاقی ظلم ناانصافی جیسے ہر تکلیف دہ حادثات کو نہیں بھول پاتا بلکہ یہ نا چاہتے ہوئے دماغ پرسوار رہنے والے وہ دشمن خیالات ہیں جومیرا نیند میں بھی پیچھانہیں چھوڑتے سوتے ہوئے اچانک آنکھ کھل جائے تو فوری یاد آجاتے ہیں جیسے زندگی اپنی سزا سے غافل نہ ہونے کی زمہ داری نبھا رہی ہومیری رُوح کا مزاج غمگین ہے دُکھی احساسات و محسوسات اپنی ذات کے ہوں یا پرائے مجھے اپنی گہرائیوں میں آسانی سے لے جاتے ہیں جس کا خوشی سے ایمان اُٹھ چکا ہو اور غم پر یقین بن گیا ہواسے رنگینگیاں متاثر نہیں کرتیں۔

ایک ایسا وجود جس کا دنیا میں جی نہیں لگتا مگر جانا اُسی کی مرضی پرہے جس کی مرضی پر آنا ہوا تھا صاحب کتاب ہونا میرے لیے ایسی ہی اہمیت کا حامل ہے جیسی صاحب ایمان ہونا یا صاحب اولاد ہوناضروریات حیات نے فکر روزگار میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ فکر آخرت کا سامان بھی نہیں ہو پا رہا جو میرے دنیا کے دُکھوں میں سے سب سے بڑا دُکھ ہے اگر خدا کی رحمت اور حضور اکرم صلعم کی شفاعت کا یقین نا ہوتا تو میرا مرنا بھی جینے جیسی سزا ہوتامیرے زہن کو حالات کے خیالات کے تشدد نے زخم دے دے کرنہ صرف کمزور کر دیا ہے بلکہ غم زمانہ نے ہونٹ بھی سی رکھے ہیں اس لیے مضمون کے مطابق لفظوں جملوں پر مبنی تحریر کا تسلسل قائم رکھنے کی گرفت نہیں میری سوچیں پل پل میں پٹڑی سے اُتر جاتی ہیں کتاب آپ کو راستے تو دیکھا سکتی ہے مگر چلنا استاد ہی سیکھاتا ہے مجھے اس قلمی ہنر کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملا میری کمزور سوچ مقصد سے دُور ابہام کے جنگلوں میں بھٹک رہی ہے اور میں اتنا خوش قسمت لکھاری بھی نہیں ہوں کہ لکھتے لکھتے میرا قلم بولنے لگے کہ یہ یہ لکھتے جاؤ۔
ہاں کبھی حالات بدل گئے اور ایسا ادبی ماحول میسر آ گیا فکر ضروریات سے نجات مل کر زہنی تلخیاں ختم ہو گئیں تو وعدہ کرتا ہوں کہ صحت مند ادب کتابی شکل میں پیش کرکے اس کتاب کی محرومیوں کا کفارہ ادا کروں گا اس لیے اسلوب کی کمی اور تحریری خلا کے جگہ جگہ پیدا ہونے پر اپنے پڑھنے والوں سے ہاتھ جوڑ کرمعافی چاہتا ہوں مجھے ڈر ہے ماضی کے بے فیض خدوخال اُبھارتے ہوئے کہیں حال بدنما نہ کر بیٹھوں اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔