تبلیغی جماعت اور معاشرہ

تحریر۔نظام الدین

ہندؤں کی متنازع تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) 2025 میں اپنی بنیاد کا سوسالہ جشن منا کر 2026 میں جب داخل ہوگی تو تبلیغی جماعت اپنی بنیاد کی ایک صدی مکمل کرے گی 1925 میں ہندو توا مہم
(ار ایس ایس)کی بنیاد کے بعد مسلمانوں کو اس کے منفی اثرات، شر پسندی سے محفوظ رکھنے اور دین سے واقفیت کے لیے مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے اپنے استاد محترم رشید احمد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے 1926 میں”تحریک ایمان”کی بنیاد”اے مسلمانو مسلمان بنو‘‘ کے نعرے کے ساتھ رکھی تھی ، یہ تحریک غیر محسوس طریقے سے زور پکڑتی چلی گئی کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرست تنظیم (آر ایس ایس) سامنے تھی جس کی بنیاد ڈاکٹر کیشوبلیر بیڈ گیوار نے مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں رکھی تھی جس طرح نظام الدین بستی تبلیغی جماعت کا مرکز آج تک قائم ہے اسی طرح اج تک
(آر ایس ایس) کا ہیڈکوارٹر بھی وہ ہی جگہ ہے ،،
یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کے ساتھ فلسطین بھی برطانوی کنٹرول میں تھا جہاں صہیونی تنظیموں نے یہودیوں کی فلسطین ہجرت کو منظم کرنے کے لیے زمینوں کی خریداری شروع کردی تھی، برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے بھی الگ الگ ریاست کا مطالبہ شروع کر دیا تھا
“تقسیم کرو حکومت کرو”
کی پالیسیوں کے تحت برطانوی سامراج نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینا شروع کردیا تھا،
“راقم الحروف” 1982 میں پہلی بار بھارت اپنے آباؤ اجداد کے گھر بدایوں گیا تو اپنے کزن کے ساتھ بدایوں سے دہلی نظام الدین اولیاء بستی بھی پہنچا جہاں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھنے والی بنگلہ مسجد میں کچھ بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ان میں غالباً قاری نسیم صدیقی بھی تھے میں نے ان سے سوال کیا کہ تبلیغی جماعت بنانے کا کیا مقصد تھا؟ دین کی تبلیغ کے علاؤہ اور بھی کوئی مقصد درکار تھا؟ قاری نسیم صاحب نے اپنی یاداشت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار میں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی کے صاحب زادے مولانا یوسف صاحب کے ساتھ تبلیغ کے دورے پر تھا تو میں نے بھی آپ کے جیسا سوال ان سے کیا تھا “تب” انہوں نے بتایا کہ میرے والد جناب مولانا الیاس کاندھلوی صاحب فرماتے تھے کہ ، انبیاء علیہم السلام کے علاؤہ چلنے والی تحریکیں کبھی نقص سے پاک نہیں ہوسکتیں یہ ہی بات تبلیغی جماعت پر بھی لاگو ہوتی ہے،
جب برصغیر برطانوی دور میں تقسیم کی صورت حال سے
گزرہا تھا تو فکر یہ لاحق تھی کہ مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور جب دنیا میں حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد ہو تو تبلیغی جماعت کے پلیٹ فارم کا لشکر بھی ان کے ساتھ ہو،،،
قاری نسیم صاحب نے مزید بتایا کہ برطانوی دور میں جب مسلمان جوق درجوق تبلیغی جماعت میں شامل ہونے لگے تو برطانوی حکومت کے تحت انٹیلیجنس بیورو نے اس تنظیم کے بارے میں ایک رپورٹ 1932 میں فائل کی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ایک مذہبی تنظیم ہے اور مسلمانوں کی اصلاح اور ان کو مذہب کی جانب راغب کرنا اس کا مقصد ہے۔1941 میں پھر برطانوی حکومت نے انٹیلیجنس بیورو سے اس کے بارے میں ایک مفصّل تفتیشی رپورٹ مانگی یہ رپورٹ آج بھی برٹش میوزیم میں موجود ہے انٹیلیجنس بیورو نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح یہ جماعت مسلمانوں کو برائی سے گریز اور نیکی کی جانب مائل ہونے کی تلقین کرتی ہے اور اس کے لئے سب سے زیادہ زور نماز پڑھنے پر دیا جاتا ہے۔ برطانوی حکومت اس تنظیم کی جانب سے بے غم ہو گئی۔ مگر تقسیم ہند کے بعد 1953 میں حکومت ِ ہند نے انٹیلیجنس بیورو سے پھر ایک تفصیلی رپورٹ کی فرمائش کی جس کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت تک پاکستان میں بھی تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں کافی زور پکڑ چکی تھیں۔ تبلیغی جماعت کے بارے میں 1953 کی یہ رپورٹ سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے،
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ تنظیم مسلمانوں میں مذہبی تلقین کا کام کرتی ہے لیکن اس کا فوکس یعنی ارتکاز صرف نماز پر ہے۔ یہ سیاسی، معاشرتی اور دیگر مسائل سے قطعی
لا تعلّق ہے، حکومت ِ اس بات سے نہ صرف مطمئن بلکہ خوش ہو گئی اور احکامات جاری ہو گئے کہ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کو جیسے وہ چاہے کام کرنے دیا جائے لیکن اس کے اہداف و مقاصد پر اس زاویئے سے نظر رکھی جائے کہ ان میں یا جماعت کی کار کاردگی میں کوئی تبدیلی تو واقع نہیں ہو رہی۔ مختصراً تبلیغی جماعت کے لوگ نماز کے علاوہ اور کسی بھی چیز کی نہ بات کرتے ہیں نہ تلقین۔ ان کو نہ سیاسی حالات سے مطلب ہے نہ معیشت سے اور نہ تعلیم سے۔ زندگی اور دنیا کے کیا تقاضے ہیں یا ہو سکتے ہیں انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں،
ان سب باتوں کے باوجود کئی ممالک میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے جس میں سعودی عرب میں فتویٰ دینے والی کمیٹی نے تبلیغی اجتماع پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اس طرح روس ، ازبکستان ، تاجکستان قازقستان جیسے دیگر ممالک میں تبلیغی جماعت کو انتہا پسندی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے پاکستان میں
ہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے کہ کچھ سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد گروہوں نے ان کی صفوں میں پناہ حاصل کی تھی مگر تبلیغی جماعت نے کبھی بھی اس کی زمے داری قبول نہیں کی ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی کبھی تبلیغی جماعت کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا ،،، مختصراً یہ کہ ہندوستان پاکستان اور بنگلادیش میں تبلیغی جماعتوں کے درمیان بنیادی مقصد ایک ہی ہے مگر مقامی طریقوں اور توجہ میں کچھ فرق ہوسکتا ہے

Facebook Comments Box