کربلا کے مسافر

یہ عاشورہ کی رات کا تذکرہ ہے اور صبح عاشورہ (10محرم) کا دن تھا۔ سورج طلوع ہوا تو دھوپ کا رنگ عجب محسوس ہورہاتھا شاید معمول سے زیادہ گرمی سے ریت تپنے لگی ماحول میں کشیدگی اور متحارب گروپوں کے افراد کے چہروں پر تناؤ تھا یزیدی فوج کی تیاریوں سے صاف ظاہرہورہاتھا کہ وہ نواسہ ئ رسول ﷺ کے ساتھ کوئی نرمی کوئی رعائت کی بجائے ان کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ یہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کا دن تھا فجر کی نماز ادا کرتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسینؓ کے مقابل آ گیا عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کا ایک سالار مقررکردیا یہ اس کی جنگی حکمت ِ عملی تھی کہ سارا لشکرایک ہی بارلڑائی میں جھونکنے کی بجائے وہ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا جس کا ایک ہی مقصد تھا امام حسینؓ کو یزیدکی اطاعت پرراضی کیا جا سکے اور ان کے ساتھی خوفزدہ ہوکر امام حسینؓ کا ساتھ چھوڑ جائیں لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی۔ عمرو بن سعد لشکر نے1000سواروں پر مشتمل لشکر کا سالار حر بن یزید کو بنا دیا وہ سب سے پہلے امام حسینؓ کے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس کا لشکر کربلاؓ کے مسافروں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔حربن یزید کا دل خون کے آنسو رونے لگا وہ سوچنے لگا حالات نے مجھے اس شخصیت کے مقابل آن گھڑاکیاہے جسے نبی آخرالزماں ﷺ نے جنتی نوجوانوں کا سردار قراردیا ہے حیف صد حیف میں نے حکمران کا ساتھ دیا خدا یقینا مجھے معاف نہیں کرے گا اس کی ضمیر سے ایک آواز اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوتی چلی گئی حرؒبن یزید نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیامیں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کروں گا اور یہ کفارہ امام عالی مقام ؓ کا ساتھ دے کر ہی ممکن ہے اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگاوہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے امام حسینؓ کے قریب چلاگیا حربن یزید کو اتنا قریب دیکھ کر امام عالی مقام کے ساتھی مضطرب ہو گئے لیکن انہوں نے غورکیا تو حربن یزید کے دونوں ہاتھ خالی تھے ایک سوار بولا شاید حرکو پیغام لے کر آیاہے دوسرا کہنے لگا میرے خیال میں پیام و پیغام کا وقت گذر چکاہے یقینا کوئی اور بات ہوگی پھر فلک نے ایک عجیب منظردیکھا حربن یزید نے اپنی تلوار حضرت امام حسینؓ کے قدموں میں پھینک دی اور دونوں ہاتھ باندھ کر معافی کا طلبگارہوگیا اس کی آنکھوں سے اشک روں تھے اور چہرے پر شرمندگی کے ایثار۔ وہ کہنے لگا ” شایدیہ میری غفلت ہے کہ آپ کو واپسی کے لئے واپسی کے دوازے بند ہوگئے ہیں۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک چلے جائیں گے میں سخت نادم ہوں اب میں آپ کے حضور توبہ تائب ہو کر آیا ہوں للہ مجھے معاف کردیں۔ 10محرم61 ھ بروز جمعہ10اکتوبر680ء کا دن تاریخ بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتی اس روز سورج طلوع ہوا تو یوں لگ رہاتھا جیسے اس کی وحشت میں اضافہ ہوگیا ہو اوپر چلچلاتی دجوپ نیچے تپتی ہوئی ریت،ہرکوئی پسینے سے شرابور۔ فرات کے کنارے اب یزیدی لشکراور حسینی لشکر آمنے سامنے تھا گویا طبل ِ جنگ بج چکا تھا لیکن کمال بات یہ تھی کہ ایک سو سے بھی کم کے مقابل ہزاروں سپاہی ہرقسم کے اسلحہ سے لیس نعرے لگارہے تھے لیکن وہ اندر سے خوفزدہ تھے امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم پہلے نمازِ ظہر اداکریں گے آذان کی سرمدی آواز فضا میں بلند ہوئی وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے صفیں بنانے لگے کہ نہ جانے کدھر سے ایک تیر آیا اور ابو شمامہؓ صائدی کے سینے میں پیوست ہوگیا وہاں سے خون کا ایک فوارہ ان کے جسم کو رنگین کرتا ہوا پورے وجودمیں پھیل گیا بو شمامہؓ صائدی نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہو گئے اس کے باوجود حضرت امام حسینؓ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر ”صلوٰۃ الخوف“ کے مطابق ادا فرمائی۔عجب بات یہ تھی کہ یزیدی لشکر سے بھی اذان کی آواز آرہی تھی جس شخصیت کے خلاف وہ صف آرا ہوکر جان کے دشمن ہورہے تھے اس کے نانا کانام سن کربھی وہ خواب ِ غفلت سے نہ جاگے یہ کمال بے حسی تھی یا اسے بے حسی کی معراج بھی کہاجاسکتاہے نماز ادا کر لینے کے بعد دونوں جانب سے صف بندی شروع ہوگئی نقارے بجنے لگے،ماحول پر عجب وحشت کا راج تھا گویا جنگ شروع ہو گئی یزیدی لشکر نے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو انہی کے خون سے غسل دیناشروع کردیا فضا زخمیوں کی آہوں،چیخوں اور شور سے گونجنے لگی۔ مخالفین کا ہدف امامؓ عالی مقام تھے دشمن ان تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ یہ جنگ جلد از جلد منطقی انجام تک چلی جائے زہیر ؓبن القین نے ننگی تلوار لے کر آپ کے گرد چکر لگانا شروع کردئیے تاکہ دشمن کوئی نقصان نہ پہنچا سکے انہوں نے کئی خون کے پیاسوں کو واصل کردیا بالآخر وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب امام حسینؓ کے پاس چند گنے چنے رفقا ء کے اور کوئی نہ رہا تھا وہ سب جانتے تھے ہم سب کا ایک ہی انجام ہے یعنی یقینی موت۔۔ کربلا کے مسافروں نے جان لیا تھا اب کچھ نہیں ہوسکتااس کا مطلب ہے ہم امام حسینؓکی جان بچا سکتے ہیں نہ اپنی جان، اس لئے ہر شخص کی خواہش تھی کہ میں امام حسین ؓپرقربان ہوجاؤں تو میرے لئے نجات کاسبب بن جائے گا امام حسینؓ کے ساتھی نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ ریاستی جبرکا مقابلہ کر رہے تھے وہ اپنا انجام جانتے تھے لیکن کسی طور پیچھے ہٹنے کے لئے ایک لمحہ کے لئے تیار نہ تھے۔ اتنے میں امام حسینؓ کے بڑے صاحبزادے علیؓ اکبر آگے بڑھے تو امام حسین کے ساتھیوں میں ایک نیا جوش نیا ولولہ پیدا ہوگیا حضرت علیؓ اکبر شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے جس کا ترجمہ ہے ”میں حسین بن علیؓ کا بیٹا ہوں، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ﷺ کے بہت قریب ہیں۔ لشکرِ یزید کے کئی سپاہی تلواریں سونتے ان کی طرف لپکے یکایک مرہ بن منقذ نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا اس بدبخت نے علیؓ اکبر کو نیزہ مار کر زمین پر گرا دیا انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر کچھ اور بدبخت سپاہیوں نے انہیں اپنے نرغے میں لے لیا انہوں نے لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور فاتحانہ انداز میں تلواریں لہراتے ہوئے لشکر میں گم ہوگئے۔ جگر گوشہ ئ امام حسینؓ اپنے صاحبزادے کی کٹی پھٹی میت کے قریب تشریف لائے دو زانوں ہوکر اس کے چہرے پرپیار سے ہاتھ پھیرنے لگے پھر آپ کے ہونٹوں سے نکلا ”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کیسے بے وقوف ہیں“ امام حسین ؓ کے دو ساتھیوں نے چادر بچھا کر حضرت علیؓ اکبر کا لاشہ اس میں سمیٹا اور اٹھاکر خیمہ ئ سادات میں لے آئے جگر گوشہ نواسہ رسول کی حالت دیکھ کر بچوں اور خواتین کی چیخیں نکل گئیں ماحول پر آہیں اور سسکیاں غالب آگئیں تھیں جنگ جاری تھی،حق وباطل کے درمیان معرکہ بپا تھا دونوں جانب مسلمان ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملہ آور تھے،فرات کے کنارے خونی کھیل اب تلک درجنوں افرادکو خاک و خون میں نہلا چکا تھا امامؓ عالی مقام کے جانثار ساتھی شجاعت کی نئی تاریخ رقم کررہے تھے ہزاروں سپاہیوں پر مشتمل یزیدی لشکر اندرسے خوفزدہ تھازخمیوں کی کراہوں اور رزمی نعروں سے میدان ِ جنگ پر ہیبت طاری تھی کہ اسی دوران عمرو بن سعد نے امام حسین پر حملہ کرنا چاہا لیکن حضرت حسنؓ کے بیٹے قاسمؓ بن حسن آڑے آگئے بدبخت نے غصہ میں آکران کے سر پر تلوار دے ماری جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور قاسمؓ بن حسن کے منہ سے بے ساختہ نکلا ”ہائے حسینؓ“ ان کے آخری الفاظ سن کر امام حسین نے تیزی سے لپک کر ان کو سنبھالا اور عمرو بن سعد پر تلوار سے جوابی وار کیا جس سے کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا وہ تکلیف کی شدت سے چیخنے لگا۔ امام حسین ؓ نے بھتیجے کی لاش اپنے کندھے پر اٹھا کر دیگر شہیدوں کی لاشوں کے قریب لاکر رکھ د ی شہداء کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی درجنوں جانثار امام حسین پر قربان ہوگئے خیمہ ئ سادات سے سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی لیکن جنگ ابھی جاری تھی ایک ایک کرکے کربلا کے مسافر شہید ہوتے چلے گئے ۔ امام حسینؓ تقریباً تن تنہا رہ گئے کوئی مددگارباقی نہ رہا حضرت زین العابدینؓ بیماری کے باعث خیمے تک محدود تھے یزیدی تلواریں اور نیزے اٹھاکر نعرے لگانے لگے اب کربلا کے میدان میں امام حسینؓ تنہا تھے ان کا لباس جگہ جلہ سے پھٹ چکا تھا چہرہ غبار سے اٹ گیاجسم پر زخموں کے کئی گھاؤ صاف دکھائے دے رہے تھے اس کے باوجود ان کا عزم جواں اور سربلند تھا یہی ان کی شخصیت کا خاصا تھاآپ کے چاروں جانب دشمن ہی دشمن تھے، خون کے پیاسے لیکن اس کے باوجود کسی کو ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ کافی دیر تک دشمنوں میں یہی کش مکش رہی کہ حملہ کون کرے جو بھی یزیدی سپاہی آپ کی طرف بڑھتا فوراً خوفزدہ ہوکر واپس لوٹ جاتا پھر اچانک قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب شخص مالک بن نسیر گھوڑا دوڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور اس نے امام حسینؓ کے سر مبارک پر حملہ کر دیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اسی حالت میں امام حسین ؓ بڑی مشکل سے اٹھے انہوں نے دیکھا چھوٹا صاحبزادہ قریب ہے انہوں نے اشارے سے عبداللہؓ بن حسین کو اپنے پاس بلایا،پیارکیا پھر اپنی گود میں بٹھالیا اسی اثناء میں بنو اسد کے ایک بدبخت شخص نے ان پر ایک تیر چلایا جو عبداللہؓ بن حسین کے سینے میں پیوست ہوگیا ننھا شہید بھی اپنے بابا پر قربان ہوگیا تھا امام حسینؓ نے اپنے معصوم بچے کا خون دونوں ہاتھوں میں لے کر زمین پر بکھیر دیا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئیے وہ کہہ رہے تھے ”اے اللہ! تو ہی ان بدبخت اور ظالموں سے ہمارا انتقام لینا۔“ شدت ِ غم سے امام حسینؓ کاحلق خشک ہوگیا پیاس حد کو پہنچ چکی تھی زخموں سے چور وہ پانی پینے کے لئے دریائے فرات کے قریب جاپہنچے مگر حصین بن نمیر نامی ایک ظالم شخص نے تاک کران کی طرف ایک تیر پھینکا جو امام حسینؓ کے منہ پر جا کر لگا جس سے دہن مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹنے لگ گیا۔ اسی دوران شمر ذی الجوشن متعدد انپے سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے کر امام حسینؓ کی جانب بڑھنے لگا آپ پیاس کی شدت سے نڈھال اور زخموں سے چور ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے ان کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ وہ جس طرف کارخ کرتے دشمن وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ شمر نے جب یہ عالم دیکھا کہ امام حسین سے سپاہی خوفزدہ ہیں کوئی بھی انہیں قتل کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے تو اس نے غصہ سے کہا تم سب حملہ کر دو۔“سرکش کو زندہ نہیں چھوڑنا یہ میرا حکم ہے۔ بھاگتے سپاہی یہ سن کررک گئے اور نیزوں اور تلواروں سے بیک وقت امام حسینؓ پر حملہ کر دیا امام حسین ؓ نے ہاتھ بلند کرکے دشمن سے کہا مجھے آخری بار اللہ کے حضور سجدہ کرنے دو سپاہیوں نے انہیں گھیرے میں لے گیا امام عالی مقام آہستہ آہستہ اٹھے اللہ اکبر کہہ کر نماز ادا کرناشروع کردی ابھی وہ سجدے میں ہی تھے کہ شمر ذی الجوشن تیزی سے آگے بڑھا اوران کا سر تن سے جداکردیاآپ کے ہونٹوں پر آخری الفاظ تھے اے میرے اللہ میں تیری رضا پر راضی ہوں بالآخر کار امام حسینؓ نے جام شہادت نوش فرمالیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شہادت کے وقت آپ کے جسم مبارک کے 113 تیروں کے زخم،نیزوں کے 34چھید اور تلواروں کے33گھاؤ تھے۔ ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہ ئ حق ادا کرکے امام حسینؓ نے پوری دنیا کو یہ درس دیا ہے کہ حق اور نظرئیے کی خاطر جان بھی قربان کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

Facebook Comments Box