آزادی کا خواب اور قربانیوں کا سفر

تحریر: نعمان احمد
14 اگست 1947 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہ دن نہ صرف پاکستان کی آزادی کا دن ہے بلکہ اس عظیم جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جو لاکھوں مہاجرین نے اس نئی سرزمین کو اپنا گھر بنانے کے لیے کی۔ یہ مہاجرین، جنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی خاطر ہجرت کی، ایک ایسی داستان کے کردار ہیں جو قربانی، استقامت اور عظیم جذبے سے بھری ہوئی ہے۔
جب برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوا، تو لاکھوں افراد نے اپنے گھر بار، زمینیں، کاروبار اور حتیٰ کہ اپنی یادیں چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یہ سفر آسان نہ تھا۔ مہاجرین کو ناقابل تصور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنے وطن سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں کو لوٹا گیا، اور بہت سے لوگوں نے اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھو دیا۔ ٹرینوں، پیدل قافلوں اور دیگر ذرائع سے یہ لوگ ایک نئی امید کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں کی طرف بڑھے۔
یہ مہاجرین صرف اپنی جان بچانے کے لیے نہیں بھاگے تھے، بلکہ وہ ایک ایسی سرزمین کی تلاش میں تھے جہاں وہ اپنی شناخت، مذہب اور ثقافت کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے اپنی جانوں کی بازی لگا دی، اپنے خاندانوں کو خطرے میں ڈالا، اور اپنی جمع پونجی قربان کر دی تاکہ ایک نئے پاکستان کا خواب پورا ہو سکے۔
افسوس کی بات ہے کہ جب یہ مہاجرین پاکستان پہنچے تو انہیں وہ عزت اور پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ مقامی آبادی اور مہاجرین کے درمیان اکثر فاصلے رہے۔ زبان، ثقافت اور معاشی حالات کے فرق نے اس خلیج کو مزید گہرا کیا۔ بہت سے مہاجرین کو “مہاجر” کے لیبل کے ساتھ تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں نوکریوں، رہائش اور بنیادی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہا۔
خاص طور پر شہری علاقوں جیسے کراچی اور لاہور میں، جہاں مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہوئی، انہیں اکثر مقامی آبادی کے غصے اور حسد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں یا مقامی ثقافت کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف غیر منصفانہ تھا بلکہ اس نے مہاجرین کے جذبے کو بھی ٹھیس پہنچائی، جو اپنے خون اور پسینے سے اس نئے وطن کی تعمیر کے لیے کوشاں تھے۔
مہاجرین کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے نہ صرف اپنا سب کچھ چھوڑا بلکہ پاکستان کی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ مہاجرین میں بہت سے تعلیم یافتہ، ہنر مند اور پیشہ ور افراد شامل تھے جنہوں نے پاکستان کے سول سروس، تعلیمی اداروں، صنعتوں اور دیگر شعبوں کو مضبوط کیا۔ کراچی، جو آج پاکستان کا معاشی مرکز ہے، اس کی ترقی میں مہاجرین کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے اپنے ہنر، محنت اور لگن سے اس شہر کو ایک عظیم تجارتی اور صنعتی مرکز بنایا۔
مہاجرین نے نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ لیا بلکہ پاکستان کی ثقافتی اور سماجی شناخت کو بھی تقویت دی۔ انہوں نے اپنی زبان، ادب، فنون اور روایات کو پاکستان کی دھرتی پر زندہ رکھا۔ اردو، جو آج پاکستان کی قومی زبان ہے، مہاجرین کی بدولت ملک بھر میں رابطے کا ذریعہ بنی۔ ان کی ادبی و ثقافتی خدمات نے پاکستان کی شناخت کو ایک نئی جہت دی۔
آج، جب ہم پاکستان کے 78ویں یوم آزادی کے قریب ہیں، ہمیں مہاجرین کی قربانیوں کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو اپنا سب کچھ قربان کر کے اس سرزمین پر آئے، ان کی کہانیاں ہمارے قومی بیانیے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی قربانیوں کو عزت دی جائے اور ان کے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ سلوک کی تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔
مہاجرین کی جدوجہد ہمیں اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب پاکستانیوں کو ایک قوم کے طور پر قبول کریں، خواہ وہ کسی بھی پس منظر، زبان یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ مہاجرین کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جو قربانیوں اور محنت سے بنی ہے، اور اس کی ترقی کے لیے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان آنے والے مہاجرین کی قربانیاں ہمارے قومی ورثے کا ایک عظیم حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنی جانوں، مال اور خاندانوں کی قربانی دی تاکہ ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے سکیں۔ بدقسمتی سے، ان کے ساتھ غیروں جیسا سلوک ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آج ہمیں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، تاکہ یہ ملک اس خواب کو پورا کر سکے جس کے لیے لاکھوں مہاجرین نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔
اللہ پاک ہمارے ملک پاکستان کو مزید ترقی عطا فرمائے اور اس میں رہنے والوں کو اتحاد و اتفاق نصیب فرمائے۔ آمین،

Facebook Comments Box