از قلم: حسنین سرور جکھڑ
ہم ایک ایسی صدی میں جی رھے ھیں جہاں دنیا انسانوں سے کام لینا بند کر چکی ہے اُسکی جگہ مصنوعی روبوٹ تیار کیے جارھے ہیں ۔۔۔۔۔۔خلا میں بستیاں بنانے کی منصوبہ بندی ھو رہی ہے اور عالمی طاقتیں پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملکِ پاکستان جہاں ہر سال سیلاب تباہی لے کر آتا ہے وہاں خصوصًا جنوبی پنجاب کا ایک پسماندہ ضلع لیہ جو ہر سال مون سون کی بارشوں کے بعد اِس قدر بری حالت میں آ جاتا ہے جیسے یہاں کے لوگ اب بھی کسی پتھر کے دور میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔۔۔۔۔
ضلع لیہ میں رواں سال آنے والا سیلاب کوئی نئی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل دُکھ بھری داستان ہے جو ہر سال دُہرائی جاتی ہے اور اس بار بھی مون سون کے ابتدائی دنوں میں ہی بارشوں اور دریا کی طغیانی نے پچاس سے زیادہ دیہاتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا جس میں بیٹ واساوا شمالی سر فہرست ہے کئی بستیاں زیر آب آ گئیں۔۔۔کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے ہزاروں کسان اپنی سال بھر کی کمائی سے محروم ہو گئے اور درجنوں خاندان بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔۔۔۔۔ شاید ہماری سب سے بڑی غلطی کسی بھی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ صِرف حکومتی اداروں کو بُرا بھلا کہتے ہیں اِس آفت کا ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ آخر وجہ کِیا ہے؟ جو سالہ و سال آفت بن کر رہتی ہے یہ کُچھ ہماری غلفت کے سبب بھی ہے۔۔۔۔
اگر ہم سنجیدگی سے سوچیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہر سال آنے والے سیلاب کو صرف قدرتی آفت کہنا درحقیقت اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ اگر بروقت انتظامات، منصوبہ بندی اور درست قیادت ہوتی تو یہ نقصان اِس شدت کے ساتھ ہر سال نہ ہوتا۔ ماحولیاتی تبدیلیاں جو ایک عالمی مسئلہ ہیں مگر ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جن ملکوں نے منصوبے بنائے وہاں تباہی نہیں آتی جبکہ ہمارے ملک میں ماحولیاتی تباہی کو سنجیدگی سے نہ لینا، سب سے بڑی تباہی بن چکا ہے۔۔۔۔۔۔
درخت جو بارش کے پانی کو جذب کرنے اور زمین کو مضبوطی فراہم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ سالوں سے کٹ رہے ہیں اور جنگلات کا صفایا اب ایک کاروبار بن چکا ہے۔۔۔۔۔
اِس سب کے بعد اگر کوئی پوچھے کہ ڈیمز کہاں ہیں؟ بند کہاں ہیں؟ انتظامات کہاں ہیں؟ تو اُس کا جواب صرف خاموشی، شرمندگی اور حکومتی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔۔۔۔ آخر کیوں ۔۔۔؟
حکومت کیا کر رہی ہے؟ شاید صرف دیکھ رہی ہے۔ریاست تو ماں ہوتی ہے تو پھر یہ ظالم کدھر ہے ۔۔۔؟
ضلع لیہ کے وہ مقامی لیڈر جو الیکشن کے دنوں میں ہر دروازے پر دستک دیتے ہیں۔۔۔۔ گلیوں میں جلسے کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ آج کہاں یں؟ شاید اس میں ہماری ہی سب سے بڑی غلطی ہے الیکشن وقت ہم کیوں نہیں اُن سے یہ سوال کرتے کہ سیلاب کی صورتحال پر آپ کے کیا اقدامات ہیں ۔۔شاید وہی لیڈر ہر بار منتخب بھی ہوتے ہیں ،لیکن ہر بار نیا چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ صِرف سوشل میڈیا پر بیان بازی کے علاوہ کُچھ بھی نہیں کر رھے ۔۔۔ ضلع لیہ میں اس وقت دو ایم این اے اور پانچ ایم پی اے ایوان میں موجود ہیں ،لیکن صِرف ذاتی فائدے کے سِوا اُن کو کوئی غرض نہیں ۔۔۔۔
میں نے پچھلے سال بھی سیلاب کی صورتحال پر اپنے الفاظ قلم بند کیے تھے لیکن آج بھی سیلاب کی اُس سے بھی بد تر صورتحال ہے ۔۔۔۔
ہم کب تک اِسی طرح ہر سال سیلاب کا انتظار کرتے رہیں گے؟ کب تک اپنے گھروں کو پانی میں بہتا دیکھیں گے؟ کب تک فصلوں کی تباہی دیکھیں گے ؟ کب تک چھوٹے بچے خیموں میں سسک سسک کر جئیں گے؟اور کب تک صرف لیڈر اور حکومت کے وعدوں پر گزارا کریں گے۔۔۔۔؟ یہ بہت سارے سوالات ھیں ۔۔۔لیکن شاید جواب دینا والا کوئ نہیں ۔۔۔۔
ہمارا ڈپٹی کمشنر لیّہ جناب امیر بیدار ،اسسٹنٹ کمشنر محمد حارث صاحب اور محکمہ ایری گیشن سے پر زور مطالبہ ہے کہ نہ صرف مستقل بنیادوں پر سیلاب سے بچاؤ کا مربوط اور جدید نظام بنایا جائے بلکہ ماحولیات، درختوں، پانی کے راستوں اور مقامی آبادی کی حفاظت کے لیے سخت قوانین لاگو کیے جائیں اور اُن پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو نہ صرف یہ کالم اگلے سال دوبارہ لکھنا پڑےگا، بلکہ اس میں مزید جنازوں، اور مزید بہتے گاؤں کی تفصیل بھی شامل کرنی پڑے گی اور یہ ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ماتم ہوگا۔۔۔۔۔افسوس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔