کربلا کے میدان میں نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے دین اسلام کی بقاء کیلئے اپنے اہل خانہ ؓ سمیت ہر چیز قربان کر دی۔ کیوں؟ کیا ہمارے لئے یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کیا انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس تناظرمیں غورکیا جائے تو نئی نئی حقیقتیں آشکارہوتی ہیں،استقامت،وفاداری اور محبت کے نئے جہاں متعارف ہوجاتے ہیں لیکن آج ان باتوں پر غورکون کرتاہے آج تو وفاداریاں تبدیل کرنا فیشن بن گیاہے شاید لوگوں کے دیدوں کا پانی مر گیا ہے سارا احوال ہمارے سامنے ہے سوچتے تو دل دکھتاہے کہ یہ لوگ کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے ۔آخری الہامی کتاب پر حلف دے کربھی اپنے لاکھوں ووٹروں کے اعتمادکا خون کرکے محض کچھ مفادات کے لئے سیاسی وفاداریاں ہمیں چاہیے تبدیل کرنے والوں کو نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار و افکار سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے کربلا کے میدان میں یزیدی افواج کے سامنے جھکنے کی بجائے اپنی جان قربان کر دی لیکن اپنے نظریات کے لئے کوئی نظریہ ضرورت ایجاد نہ کیا اور یزیدکی اطاعت نہ کرکے ایسی تاریخ رقم کردی دنیا جس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے آپ نے اپنی سیاست، نظریات اور دین اسلام پر آنچ نہ آنے دی اور نانا ﷺکے دین اسلام کی حفاظت کا حق ادا کر دیا۔ آپ ؓ اور دیگر شہدائے کربلاؓ نے اسلام کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے قیامت تک ہمیں درس دیاہے کہ
سرکٹ کے چڑھ جائے تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
اس لئے۔ ذکر حسین ؓکیساتھ فکر حسینؓ کو بھی اپنانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے انسانیت کو باطل کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیااب سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا کردارکیاہے آج ہرکوئی یزید کو لعنت ملامت کررہاہے اس نے جو ظلم کیا وہ اسی کا حقدارہے لیکن جناب حسینیت اور یزیدیت کی جنگ آج بھی جاری ہے اور ہردور میں جاری رہے گی ہم یزید کو برا کہتے ہیں کیونکہ وہ مرچکاہے جب و ہ زندہ ہوتا تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا کے میدان میں اپنے 80 ساتھیوں کے ساتھ کھڑے تھے پوری امت ِ مسلمہ میں کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ہم مردہ یزیدوں کو حلق پھاڑ قھاڑ کر برا بھلا کہتے ہیں لیکن وقت کے یز یدوں کی اطاعت کررہے ہیں قول و فعل کا تضاذ ہمیں دکھائی نہیں دیتا حیف صد حیف۔۔ کربلا کا پیغام آج بھی زندہ ہے، اور ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ جب باطل نظام غالب ہو، جب ظلم کو قانون بنا دیا جائے اور جب حق کو دبایا جائے، تو خاموشی جرم بن جاتی ہے بلاشبہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ جرأت و استقامت اور حریت و عزیمت کا استعارہ ہیں یقیناشہدائے کربلاؓ کی لازوال قربانیاں تاریخ اسلام کا روشن باب ہے امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لازوال نظریات نے امت مسلمہ کو قیامت تک باطل قوتوں سے نمٹنے کا طریق کار عطا کیا ہے خاص طور پر مسلم حکمرانوں کو ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی بے انتہا ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ کربلا تاریخِ انسانی کا ایک روشن مینار ہے، جو ہمیں ظلم، جبر اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا پیغام دیتا ہے۔ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ کی شہادت صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان دائمی معرکے کا استعارہ ہے۔ آج عالم اسلام بالخصوص فلسطین، کشمیر، ایران، اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اسی جذبہ حسینی سے جواب مانگتے ہیں آج جب اسرائیل جیسے طاقتور دشمن، امریکہ کی پشت پناہی سے دنیا بھر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کیا ہواہے تو ہمیں امام حسین کے جذبہ شہادت کو یاد رکھنا چاہئے دراصل سانحہ کربلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حق کے لئے کھڑے ہونے والے اگرچہ قلیل اور کمزور ہوں لیکن باطل قوتوں کو للکارنا ہی اسوہ ئ حسینی ہے اور ہمیں اسی جذبے کو اجاگر کرکے ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرناہوگی متحد ہوکرمظلوموں کا ساتھ دینا ہے وقت کے یزیدوں کا مقابلہ کرناہے اس کے لئے
رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت و کردار گفتار ملت اسلامیہ کیلئے مشعل راہ بناناہوگا تاکہ نفرتو ں کا خاتمہ ہونے میں مدد مل سکے کیونکہ محرم الحرام صبر و وفا، قربانی اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔کہ ہم حرمت کے مہینے کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کریں اور فرقہ واریت سے اجتناب کریں اور عزم کریں کہ ہم حسینی جذبے سے سرشار ہو کر ہر دور کی یزیدی قوتوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے یہی عاشورہ محرم کا ابدی پیغام ہے۔