ہماری ذمہ داری

تحریر؛ نعمان احمد
موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل آج کے دور کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک، جو پہلے ہی معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا، فصلوں کو تباہ کیا اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ یہ صورتحال نہ صرف فوری امداد کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ طویل مدتی ماحول دوست پالیسیوں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کی اہمیت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اسلام، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہمیں ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی وسائل کے درست استعمال کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ الاعراف (7:56) میں ارشاد ہے: ” زمین میں فساد نہ پھیلاؤ جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی۔” یہ آیت ہمیں ماحولیاتی تباہی سے روکتی ہے اور زمین کی حفاظت کی تلقین کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر قیامت آ رہی ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک پودا ہو تو اسے لگا دو۔” (مسند احمد)۔ یہ حدیث ماحولیاتی تحفظ اور شجر کاری کی اہمیت کو واضح کرتی ہے.
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے کہ شدید سیلاب، خشک سالی، گلیشیئرز کا پگھلنا اور گرمی کی لہروں کی صورت میں سامنا ہے۔ 2022 کے سیلاب نے سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں کو شدید متاثر کیا، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوئی۔ اس سے غذائی عدم تحفظ اور معاشی بحران نے جنم لیا۔ اسلام ہمیں وسائل کے درست استعمال اور اسراف سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے۔ سورۃ الاعراف (7:31) میں ارشاد ہے: “کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو، اللہ پاک اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” صنعتی سرگرمیوں میں ضرورت سے زیادہ وسائل کا استعمال اور آلودگی ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتی ہے، جو اس آیت کی روشنی میں ناپسندیدہ ہے۔
پاکستان کی صنعتی پالیسیوں کو ماحول دوست بنانے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، کارخانوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں اور کیمیکلز کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کیے جائیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے، یہ عمل زمین پر فساد پھیلانے سے روکنے کے مترادف ہے۔ دوسرا، صنعتی عمل میں پانی اور توانائی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے استعمال میں اعتدال کی تلقین کی، یہاں تک کہ دریا کے کنارے وضو کرتے وقت بھی پانی بچانے کا حکم دیا (صحیح مسلم)۔ اسی طرح، صنعتی شعبے کو قابل تجدید توانائی جیسے کہ شمسی، ہوائی اور ہائیڈرو پاور کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔
قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی اور ہوائی توانائی پاکستان کے لیے ایک مثالی حل ہیں۔ پاکستان میں سورج کی روشنی وافر مقدار میں موجود ہے، اور شمسی توانائی کے منصوبوں کو فروغ دینے سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی بلکہ توانائی کے اخراجات بھی کم ہوں گے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل کو اپنی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا (سورۃ الشعراء، 26:8)۔ ان وسائل کا درست استعمال ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے منصوبوں سے دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جو اسلامی اصول عدل و انصاف کے مطابق ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے معاشرتی سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوام میں ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے کے لیے مساجد، تعلیمی اداروں اور میڈیا کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ علماء کرام قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ شجر کاری کی مہمات کو فروغ دینا، جس طرح پاکستان ویلفیئر ٹیسٹ کے صدر جناب محمد اسماعیل صاحب کی کاوشوں سے جگہ جگہ پودے لگانے کا کام جاری ہے، اسی طرح پانی کے تحفظ کے لیے اجتماعی کاوشیں، اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنا چند عملی اقدامات ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کسی مومن نے جو پودا لگایا یا فصل بوئی، پھر اس سے انسان، پرندہ یا جانور نے کھایا، تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔” (صحیح بخاری)۔موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ماحول دوست صنعتی پالیسیوں اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی پر توجہ دینی چاہیے۔ قرآن و حدیث ہمیں زمین کے تحفظ، وسائل کے درست استعمال، اور اسراف سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر ہم ان اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں، تو نہ صرف ماحولیاتی توازن بحال ہوگا بلکہ ایک پائیدار اور خوشحال معاشرہ بھی تشکیل پائے گا۔ یہ ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم زمین کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ لکھا اور پڑھا گیا اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

Facebook Comments Box