دنیا کی ذلت اورآخرت کے عذاب سے بچو!

پاکستان پچاس کے عشرے سے لے کرتاحال اناڑیوں کے ہاتھوں انتشارکاشکاارہے۔ہمارے اناڑی سیاست دان منجھی ہوئی بیوروکریسی کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے ملک اورقوم کے لیے وبالِ جان بنے ہوے ہیں۔پاکستان میں جوکسی کام کاج کانہ ہووہ اگرمالدار ہوتوسیاست میں کود جاتا ہے، اگرکچھ غریب ہوتوکسی سرکاری ملازمت میں بھرتی ہوجاتا ہے اسی لیے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں ملازم بھی گھوسٹ پائے جاتے ہیں،ریلوے کاایک محکمہ ہے اب پتانہیں اس کاکیا طریقہ کارہوگا،ایک وقت تھااس کے ملازم کی پہچان ہوتی تھی کہ وہ دفترمیں اپنا نمبرٹانگ آئے،یا کوئی دوسرااس کا نمبرٹانگ دے،سینکڑوں ملازمین جن کی تنخواہیں تومحکمہ نمبرٹانگاہوادیکھ کرجاری کرتارہتا تھا جبکہ بندے نے کبھی ریلوے کا منہ نہیں دیکھاہوتا تھا،اسی طرح ہرمحکمے میں ہمارے ملازمین کایہی حال تھا،اورچونکہ یہ گھوسٹ سسٹم ہم نے انگریزوں کے خلاف بطورِجہادایجادکیا تھا،یعنی انگریزوں کے قبضے پران سے یہ انتقاماًکیا جاتا تھا،اورانگریزوں نے اسے جاننے کے باوجوداس سے اغماض برتاکہ اس طرح یہ قوم اپنے دین وایمان سے خالی ہوتی جائے گی،اورپھریہ ہمیشہ ہمارے غلام ہی رہیں گے، اس کے ساتھ انہوں نے ان لوگوں کواپنے ملازم رکھنے کے لیے اپنی تعلیم ان پرلازم کردی،جواس قوم کی غیرت کو مٹانے کے لیے ایک تیزاب کاکام کرگئی، علامہ اقبال نے ایک جگہ فرمایا ہے،”تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو،ہوجائے ملائم توجدھرچاہے،اسے پھیر“کام چوری اورحرام خوری کے ساتھ اس انگلش تعلیم نے اس قوم کے مذہبی اورایمانی طاقت کو ختم کردیا،اب انگریزبجاطوریہ افسوس کیا تھا کہ اگرہم ایک سال اورپاک وہندکوآزادی نہ دیتے توکم ازکم پاکستان تومعرضِ وجودمیں نہ آتاکہ قائدِاعظم فوت ہوجاتے توپھرہم ان باقی ماندہ کوسنبھال لیتے،اب کوئی یہ نہ کہے کہ قائدِ اعظم بھی توانگریزی تعلیم یافتہ تھے،ہاں مگرقائدِاعظم کام چوری اورحرام خوری کے سخت مخالف تھے، اورانہوں نے اپنے عمل سے خودلیڈربننے سے پہلے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ کام چوری اورحرام خوری کے خلاف ہیں۔لیکن ہماری سرکاری اشرافیہ سے لے کرعام ملازم تک سب ہی اس کام چوری کی لت میں پڑگئے،اورانگریزوں نے جوان کومراعات دے کرباقی عوام سے ایک الگ جون بنادیا،چونکہ وہ قابض لوگ یہ چاہتے تھے، کہ ان لوگوں کوایک علیحدہ مخلوق بنادیا جائے جنہیں دیکھ کرباقی عوام بھی سرکاری ملازمتوں کے لیے للچائے،اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے تابع ہوجائیں گے، لہذاتنخواہ کے ساتھ بجلی مفت،گیس مفت،کرایہ مکان، یا مکان،فلاں ٹی اے ڈی اے وغیرہ یہ سب انہوں نے ان لوگوں کومفت خوریاحرام خوربنانے کے لیے کیاہواتھا،اس کے ساتھ ہرملازم کواختیارات اور استثنااتنے دے رکھے تھے،کہ ہرملازم خود کوحاکم اورعوام کواپنے محکوم سمجھتا تھا،اوریہ سب کچھ پاکستان بننے کے ساتھہ ہی ہمیں جہیز میں دیا گیا،اورپھرہم نے جوایک صدی سے اسے اپنالازمہ بنارکھا تھاتووہ ہمارے جین کاحصہ بن گیا،اب پاکستان ہویا مکہ مدینہ ہم نے ملازمت اسی روش پرکرنی ہے۔ اورپھرہمارے سیاسی اشرافیہ جوانگریزوں کے حقِ خدمت کے عوض مال ودولت،جاگیریں اور عہدے لے کر قوم پرظلم وستم کرانے والے تھے،وہ جب سیاست کے پردھان بن گئے تواب وہی جوڑی جوانگریزں کی حکومت کوقائم رکھے ہوے تھی،وہ اسی طرح سے عوام کواپنے زورسے محکوم رکھے رہے، کرتے کرتے آج اٹھہتر سال گزرگئے،وہی انگریزی لب ولہجہ وہی انگریزی سامراجی طرزِ حکومت،ملازموں کووہی مراعات واختیارات،ایک طبقہ قانون بناتا ہے، ایک طبقہ قانون نافذ کرتا ہے،لیکن بنانے والے بھی صرف عوام کے لیے قانون بناتے ہیں،اورنافذکرنے والے بھی عوام پرہی نافذکرتے ہیں،اشرافیہ پریاسرکاری ملازموں پروہ قانون نافذ نہیں ہوسکتے۔اٹھہترسالوں سے اشرافیہ اورسرکاری ملازموں نے پاکستان کے کس مقام پرقبضہ نہیں کیااورکہاں کہاں سے اسے بیچانہیں، لیکن اس گذشتہ عشرے سے ناجائزقبضوں کی واگزاری میں تقریباًآدھے پاکستان کے غریب عوام سے قبضے واگزار کراتے کراتے آدھے آدھے شہرگر ا دئیے،غریبوں سے پلاٹ واگزارکراکر سرکاری اورسیاسی اشرافیہ کوکوڑیوں کے بھاودے کران کی روزی رزق کا بندوبست کیا گیا، کہ ووہ ان کوبیچ کردادِ عیش دے سکیں، یاالیکشن پرکیے خرچے پورے کرسکیں۔لیکن اب توپنجاب حکومت نے ایک بڑاہی کام کردیا ہے،کہ باقاعدہ ایک فورس بنائی ہے، جوناجائزقبضے واگزار کرائے گی، اب فورس نے سڑکوں کے کنارے کھڑی ریڑھیوں، فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہاتھ میں پکڑی چیزیں بیچنے ولوں سے ناجائزقبضے چھڑانے شروع کردئیے،بلکہ ان کے سامان پرقبضہ کرناشروع کردیا،جس پرآج سوشل میڈیا پرہاہاکارمچی ہوئی ہے،غریب عوام کومٹادینے سے غربت ختم نہیں ہوتی بلکہ کسی صاحبِ اقتدارکوغربت ختم کرنے کے لیے،غریب کوکاروباراوروسائل مہیا کرنے ہوتے ہیں،لندن اورپیرس بنانے کے لیے بے روزگاروں کوخرچہ دینا پڑتا ہے، جن کے سرپرچھت نہ ہوان کو سرکاری رہائش دینی پڑتی ہے،اورپھرکاروبارپیداکرنے پڑتے ہیں،بس یہی نہیں کہ یورپ میں بھیک مانگنے والے نہیں ہوتے لہذایہاں سے جہاں خودحکمرانوں تک بھیک مانگنے پرمجبورہیں،وہاں لوگوں کو انتظامیہ اورفورسز کے ذریعے اٹھایا جائے،ان کوبازاروں سے ہانک کرنکال دیا جائے، توجواِن کے بچے ہیں ان کاکیا قصورہے،کیاانکی آہ وفریاد،حکمرانوں کودنیا میں ذلیل اور آخرت میں عذاب میں مبتلانہ کرے گی؟ لہذا حکومت سے گزارش ہے کہ صرف سرکاری اشرافیہ کی تنخواہیں اورپینشنیں بڑھاناہی حکمرانوں کے فرائض میں شامل نہیں بلکہ ان نانِ شبینہ کوترسنے والوں کی ضروریات پوری کرناآپ کااصل فرض ہے، لہذااللہ اوراللہ کے رسولﷺکے سامنے جوابدہی سے ڈرواورغرباء اوربے آسرالوگوں کے رزق کے اسباب نہ روکوورنہ کل تمہاری فریادبھی کوئی نہ سنے گا،اللہ تعالیٰ سب پررحم فرمائے،آمین وماعلی الا البلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم

Facebook Comments Box