تاریخ آمد النبی مدینہ المنورہ

تحریر۔نظام الدین

ربیع الاول کے ماہ میں ایک سیرت النبی پر لکھی کتاب کا مطالعہ کروں یہ خواہش بہت دنوں سے میرے دل میں مچل رہی تھی ، کیونکہ” کتابیں پڑھنا پڑھ کر لطف اندوز ہو کر اس میں ڈوب جانا یہ ایک آرٹ ہے ، جس سے انسان کے جمالیات میں حسن پیدا ہوتا ہے ، اس لیے کتب خانے کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے کے باوجود بھی میں اکثر کتب خانے۔ چلا جاتا ہوں ، آج جب میں کتب خانے پہنچا تو ایک بہت پرانی نایاب کتاب میرے ہاتھ لگ گئی شاید میرے رٹائرڈ منٹ کے بعد یہ کتاب یہاں آئی تھی ؟؟؟
کتاب کا پہلا صفحہ پلتا تو کتاب سے نکلنے والی خوشبو دماغ میں پھیلتی چلی گئی ایسا لگا کہ اچانک وقت ٹھہر سا گیا ہو لفظوں کی دنیا کے در کھلتے چلے گئے ہوں ، اور لفظ جیسے وقت کے ریگستان کو چیرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے باغات کے درمیان ایک انجان کچے راستے پر لے آئے ہوں ، جہاں سے ابھی ابھی کوئی قافلہ گزرا ہو جس کی دھول ابھی تک اڑھ رہی تھی ، کچھ فاصلے پر شہر کی گلیوں میں انجان خوشبو ہوا میں پھیلی ہوئی تھی ، کچے پتھروں کے مکانات پر سفیدی سے پھوتی دیواروں پر لٹکتی پھولوں کی بیلیں ،، کھڑکیوں پر رنگین پردے ، راستہ ایسا جیسے ابھی دھویا گیا ہو مکانوں کے بیچ راستے پر ڈوبتے سورج کی سنہری روشنی چھن رہی تھی ،، مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی پینٹنگ میں داخل ہوگیا ہوں ، کچھ آگے بڑھا تو ایسا محسوس ہوا ان گھروں کی چھتوں پر ابھی ابھی خواتین اور بچے
استقبال کے ترانے پڑھ کر اب گھروں میں آرام کررہے ہیں ،، میں چلتا رہا – لوگ بھی تیز تیز قدموں سے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔ ہر چہرہ امید سے بھرا ہوا تھا میں گلیوں میں پھرتا رہا گھروں کے باہر. چولہوں پہ بڑے برتنوں میں ذائقہ دار سوپ پک رہے تھے ایک مقام پر ایک بزرگ سے پوچھا، “یہ کیا ہے؟”
وہ مسکرا کر بولے. مسافر ہو میں نے ہاں میں گردن ہلا دی،، تو پھر اج تم ہمارے مہمان بن جاؤ میں ٹھہر گیا اور جھانک کر پکتے برتنوں میں دیکھا جس میں سبز دھنیا دار چینی ادرک اور زعفران کی خوشبو محسوس ہوئی ایسا لگا جیسے ہر مصالحہ اس شہر کی کہانی سنا رہا ہو،
شہر کے وسط میں ایک چوک پر کھجور دوھ اور پنیر سے کوئی مشروب تیار ہو رہا تھا لوگ پیالے لے کر بیٹھے تھے،
میں نے بھی پیالہ مانگا سبز مشروب ہونٹوں کو چھوتے ہی دل میں عجب تپش پیدا ہوئی بھرپور ذائقہ، کھجور اور ، زعفران کی ہلکی خوشبو یہ کوئی عام سوپ نہیں تھا یہ یہاں کی تہذیب کا سارا ذوق تھا،، اسی وقت اذان کی آواز گونجی مگر اس ازاں میں کچھ اور بھی تھا ایک لے ایک ساز ایک ایسا سنگیت جو روح کو چھو جانے میں آواز کے پیچھے چل پڑا اور پھر میں ایک
مسجد کے سامنے کھڑا تھا مسجد اتنی شاندار تھی کہ آنکھیں ٹھہرتی نہیں تھیں ستونوں کے درمیان سے میں مسجد میں داخل ہوگیا جہاں کی ہوا میں نمی ایسی جیسے دیواریں بھی سانس لے رہی ہوں مجھے ایسا لگا یہ شہر زمین پر نہیں کسی خیال میں بنا ہو، یہاں گھروں کی دیواریں ایسی جیسے اینٹوں کی جگہ کتابیں لگیں ہوں اور ان کی زبان علم ہو ،،
اچانک کسی نے میرا کندھا ہلایا اور میری آنکھ کھل گئی
“کتب خانے کے ملازم نے کہا صاحب وقت ختم ہوگیا”
اور میں صدیوں کا سفر طے کرکے اکیسویں صدی کے پاکستان میں آگیا۔ میرے ہاتھوں میں جو کتاب تھی اس کا وہ پہلا صفحہ اب بھی گرم تھا جیسے گزرا وقت کتاب میں سانس لے رہا ہو ،،
اور پھر میں نے کتاب پلٹ کر دوبارہ نام دیکھا،،
(تاریخ آمد النبی مدینہ المنورہ )،،

Facebook Comments Box