تکفیر کا اختیار صرف مستند علماء اور اسلامی عدالتوں کے پاس ہے، عام افراد کے پاس نہیں۔۔۔!

اسلامی تاریخ کے حساس ترین موضوعات میں سے ایک موضوع “تکفیر” ہے، یعنی کسی کو کافر قرار دینا۔ یہ محض ایک اصطلاح یا لفظ نہیں بلکہ ایک ایسا فتویٰ ہے جس کے نتائج نہ صرف فرد کی ذات تک محدود رہتے ہیں بلکہ پورے معاشرے اور امت مسلمہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ ایمان اور کفر کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے علم اور عدالت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس بارے میں انتہائی احتیاط کی تعلیم دی اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے کفر کے فتوے دینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ مگر بدقسمتی سے تاریخ اور عصرِ حاضر میں ایسے گروہ اور افراد سامنے آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنی کم علمی یا سیاسی و عسکری مقاصد کے حصول کے لیے تکفیر کا ہتھیار استعمال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے خون کو مباح قرار دیا گیا، فرقہ واریت کو ہوا ملی اور امت کا شیرازہ بکھرتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تکفیر کا اختیار ہرگز عام افراد یا جذباتی گروہوں کے پاس نہیں بلکہ صرف مستند علماء اور اسلامی عدالتوں کے پاس ہے۔

اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی جان، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “کل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه”۔ جب کوئی شخص بلاوجہ یا غیر مستند بنیادوں پر دوسرے کو کافر قرار دیتا ہے تو گویا وہ ان تینوں حرمتوں کو پامال کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک اور حدیث میں واضح طور پر فرمایا: “اذا قال الرجل لاخيه يا كافر فقد باء بها احدهما”، یعنی جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو یہ کلمہ دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹ آتا ہے۔ اس تنبیہ کی روشنی میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ تکفیر ایک ایسا عمل ہے جس میں ذرا سی کوتاہی نہ صرف دنیاوی فساد کا باعث بنتی ہے بلکہ آخرت میں بھی سنگین گناہ کا سبب بن سکتی ہے۔ افسوس کہ آج کے دور میں شدت پسند گروہ اسی عمل کو اپنے سیاسی ایجنڈوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تکفیر کے غلط استعمال نے ہمیشہ امت کو نقصان پہنچایا ہے۔ خوارج وہ پہلا گروہ تھا جس نے اپنی مرضی اور اپنی کم علمی کی بنیاد پر مسلمانوں کو کافر قرار دیا۔ ان کے نزدیک جو شخص ان کی سوچ یا فکر سے اختلاف کرتا تھا وہ ایمان سے خارج ہو جاتا تھا۔ یہی سوچ ان کے تشدد، قتل و غارت اور بغاوت کا بنیادی جواز بنی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے گروہ مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہے جنہوں نے کبھی فقہی اختلافات کو بنیاد بنایا تو کبھی سیاسی مسائل کو جواز بنا کر اپنے مخالفین کی تکفیر کی۔ مگر ہر بار نتیجہ ایک ہی نکلا: مسلمانوں کے خون کی ارزانی، معاشرتی انتشار اور دشمن قوتوں کے لیے راہیں ہموار ہونا۔ یہ تاریخ کا سبق آج بھی ہمارے سامنے ہے اور یہی حقیقت ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ تکفیر جیسے نازک مسئلے کو عام افراد یا شدت پسندوں کے ہاتھ میں دینا کس قدر خطرناک ہے۔

عصرِ حاضر میں شدت پسند گروہوں نے تکفیر کے تصور کو اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے ہتھیار بنایا ہے۔ پاکستان، افغانستان، شام، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں ایسے گروہوں نے اپنے مخالفین کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مساجد، امام بارگاہیں، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات خون سے رنگین ہو گئے۔ یہ گروہ اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں مگر ان کے اعمال اسلام کی روح اور تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔ اسلام جس دین رحمت کے طور پر آیا تھا، اسے ان شدت پسندوں نے خوف اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہوا جب تکفیر جیسے نازک اور حساس اختیار کو وہ لوگ استعمال کرنے لگے جنہیں نہ قرآن و سنت کی گہرائی کا علم تھا اور نہ امت کی وحدت کا احساس۔

اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ فتویٰ دینا یا کفر و ایمان کا فیصلہ کرنا جید علماء اور مستند عدالتوں کا کام ہے۔ ایک اسلامی عدالت ہی وہ ادارہ ہے جو تمام دلائل، شواہد اور فقہی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ دے سکتی ہے۔ اس عمل میں جلدبازی، جذبات یا ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے بڑے علماء ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ تکفیر کو آسانی سے زبان پر نہ لایا جائے۔ کیونکہ ایک بار جب کسی پر کفر کا فتویٰ لگ جاتا ہے تو اس کے معاشرتی اور قانونی نتائج بہت دور رس ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جب شدت پسند گروہ یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو وہ کسی دلیل یا فقہی بنیاد کے بغیر اپنی مرضی سے لوگوں کو کافر قرار دے کر ان کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تکفیر کا غلط استعمال صرف ایک مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ جب کوئی گروہ اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، محلے فرقوں میں بٹ جاتے ہیں اور ریاست کی رٹ کمزور پڑ جاتی ہے۔ دشمن قوتیں اس انتشار سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ چند افراد اپنی لاعلمی یا شدت پسندی کے تحت تکفیر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اگر یہ اختیار صرف علماء اور عدالتوں تک محدود رہے تو معاشرہ اس فساد سے بچ سکتا ہے اور امت کا اتحاد قائم رہ سکتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے بارہا امت کے اتحاد اور بھائی چارے پر زور دیا۔ قرآن کریم میں بھی مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ “واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا”۔ یہ آیت اور اس جیسی دیگر ہدایات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ تفرقہ بازی اور ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات دین کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں۔ جھوٹی تکفیر دراصل اسی تفرقے کی سب سے خطرناک شکل ہے جو نہ صرف فرد کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے امن و سکون کو تباہ کر دیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاستی اور سماجی سطح پر یہ بات واضح کی جائے کہ تکفیر کا اختیار صرف عدالتوں اور علماء کے پاس ہے، کسی بھی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو کافر قرار دے۔

اگر ہم آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ جہاں کہیں بھی غیر مستند افراد نے تکفیر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا وہاں قتل و غارت، خانہ جنگی اور انتشار نے جنم لیا۔ شام اور عراق میں داعش، افغانستان میں طالبان کے بعض گروہ، اور پاکستان میں کالعدم تنظیموں نے اسی ہتھیار کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، مگر حقیقت میں ان کے اعمال جہاد نہیں بلکہ فساد فی الارض تھے۔ اسلام نے فساد کے خاتمے کو جہاد قرار دیا ہے، جبکہ یہ گروہ فساد کو ہی جہاد کا نام دیتے رہے۔ اس تضاد نے دنیا بھر میں اسلام کی منفی تصویر پیش کی اور دشمنانِ اسلام کو یہ موقع دیا کہ وہ مسلمانوں کو شدت پسند اور دہشت گرد کہہ کر بدنام کریں۔

لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم بطور امت مسلمہ اس بات کو واضح کریں کہ تکفیر کا اختیار عام افراد یا عسکری گروہوں کو نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کے ہاتھ میں آگ دے دی جائے جو سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پرامن اور مستحکم رہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے اتحاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے، تو ہمیں یہ اصول اپنانا ہوگا کہ تکفیر صرف جید علماء اور اسلامی عدالتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ورنہ شدت پسندوں کے ہاتھ میں یہ اختیار امت کو مزید تقسیم، خونریزی اور تباہی کے دہانے پر لے جائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی اور آنے والی نسلوں تک پہنچانی ہے تاکہ اسلام کو اس کے اصل رحمت والے چہرے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

Facebook Comments Box