بچپن میں الف لیلوی قسم کی داستانیں جوسردیوں کی راتوں میں دادیاں نانیاں اپنے بچوں کواپنے لحاف میں بٹھاکرسنایا کرتیں تھیں،اس میں سے ایک کہانی جومجھے بعینہ تویادنہیں لیکن اس کی طرح کی کچھ باتیں یادہیں،یہ ایک بڑادلچسپ مقابلہ تھاجوعقل وکرم کی توتکارسے پیداہوگیا،کہتے ہیں عقل اورکرم ایک دن اپنی اپنی طاقت اورکرامت بیان کرتے کرتے ذراجذباتی ہوگئے، کرم نے کہاانسان کومیں ہی اعلیٰ مقام ومرتبہ عطاکرتا ہوں،اورعقل نے کہا نہیں انسان کی کرامت میری وجہ سے ہے،ورنہ تمہاری عنایات کے باوجود بھی یہ بدھوہی رہے۔ کرم نے غصے میں آکرکہاچلودیکھ لیتے ہیں، ایک غریب زمیندارکاانتخاب ہوا، کرم نے اس کے اوپراپنے سارے کرم نچھاورکردیئے کہ اس کا ہاتھ جس چیزپر پڑتاوہ اعلیٰ ترین چیزمیں بدل جاتی،وہ غریب اس وقت جواربیج رہا تھا، اب جواربڑھی پلی اوراس کودانے لگے جوموتی تھے،زمیندارکے پاس عقل توتھا نہیں کہ وہ موتیوں کوپہچانتا، اسنے انہیں پتھرسمجھ کرافسوس کیا اوروہ ان پتھروں سے اپنے باجرے پرسے چڑیاں اڑاتا،یعنی وہ ”باجرے دی راکھی“کرتا،اس طرف سے بادشاہ کا گزرہوااس نے دیکھاکہ یہ تو کوئی بہت بڑاامیرزادہ ہے، جوباجرے سے چڑیاں موتیوں کے ساتھ اڑاتا ہے،اس نے وزیرسے کہا اسے لے آومیں اسے اپنی بیٹی کاا رشتہ دوں گا، کہ ملک میں اس کے دم قدم سے ریل پیل ہوجائے گی،وزیراسے لے کربادشاہ کے محل میں پہنچے بڑی خوشامدسے اسے تیارکیا اوردلہابنایا،وہ اس سارے عمل کے دوران بالکل بے پرواہ رہااوربھاگنے کی کوشش کرتارہا،لیکن انہوں نے پکڑدھکڑکراسے دلہا بنادیا،لڑکی سے نکاح ہوگیا،محل میں نہایت سج دھج والے مقام پرشبِ زفاف کے لیے پہنچایا گیا،اس نے جب کمرے میں ایک خوبصورت عورت ایک نہایت عالی شان لباس میں ایک پھولوں بھری سیج پربیٹھی دیکھی توچیخ مارکربھاگا،آگے محل کانہانے والا تالاب تھااس میں کودگیا،لڑکی پریشان ہوکرپیچھے دوڑی،اس وقت کرم نے عقل سے کہا بھئی اب تم ہی کچھ،میری مدد کروتوعقل اس بندے کے دماغ میں اترآئی،اب اسے ہوش آیا کہ میں نے یہ کیا کیا ہے،تووہ تالاب سے باہرنکلااپنی بیوی کوساتھ لیا اوراپنے کمرے میں آگیا، اب عورت نے پوچھاکہ تم بھاگے کیوں تھے اورتالاب میں چھلانگ کیوں لگائی تھی،تواس نے اسے کہامیں نے جبآپ کودیکھاتومجھے خیال آیاکہ میراتووجودپاک نہیں تھا،توآپ سے کیسے مل رہاہوں تومیں نے بھاگ کرتالاب میں چھلانگ لگائی کہ میں نہالوں،اس طرح عقل اورکرم کے جھگڑے میں ایک عام کسان بادشاہ کے دربارتک توپہنچ گیا، لیکن اسے اپنے اوربادشاہ کی عزت کی سمجھ نہ آرہی تھی۔بلاتمثیل پاکستان یومِ اول سے عقل اورکرم کے معاملے میں پھنساہواہے، جن کوعقل ہے ان کے کرم نہیں اورجن کوعقل نہیں ان کے کرم بھلے ہیں۔آج اٹھہترسالوں سے عقل کرم سے بیزارہے اورکرم عقل سے دورہے،جوارکے پودوں سے موتی پیداکرنے والا خطہ یہودیوں کے باجروں کی راکھی ان موتیوں سے کررہا ہے۔ایک نظریئے اورایک مذہب کی نشاطِ ثانیہ کے لیے معرضِ وجودمیں آنے والا ملک عالمی لونڈی بن چکا ہے، اب پھرستارہ شناس کہتے ہیں کہ پاکستان ساڑھ ستی سے نکل گیا ہے،اوراب اس کے لیے پھرجوارکوموتی لگنے کا وقت ہے،لیکن کیااب کرم نے عقل سے صلح کرلی ہے یاوہ آج بھی اسی طرح اپنی اپنی ہی مناتے رہیں گے،کیونکہ ستارے توپھرستارے ہیں،یہ کسی وقت بھی زوال میں جاسکتے ہیں۔اورکرم جہاں بھاگ دیتے ہیں وہاں ابھاگ بھی دیتے ہیں۔تواللہ کرے ہمارے یہاں کے بھاگی یعنی حکمران ابھاگی یعنی عوام پراپنے بھاگوں سے ہی مسلط نہ رہیں،اپنی عقل سے بھی ان قسمت ماروں کے لیے کچھ کریں،ملک کو عالمی ترقی یافتہ ممالک کے نقشِ قدم پر چلانے کے بجائے،ملکی حالت جوان اٹھہترسالوں سے تجربہ کرنیوالوں نے تجربے کرکرکے کردی ہوئی ہے، اس کے مطابق عوام کوتجربوں سے نکال کران کی زمینی حقیقت کے مطابق ان سے سلوک کریں، مٹی کیچڑمیں لتھڑے لوگوں کوپہلے مسائل سے نکالیں پھرسڑکوں گلیوں اورچوک چوراہوں کوسجائیں،بھوکوں مرتی قوم کوجرمانوں سے مہذب نہ بنائیں،ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں،یہ ڈنڈالے کرنکلنے سے دنیا نہیں بدلتی دنیادل سے بدلتی ہے،اوردل دردسے روشن ہوتا ہے، اللہ اہلِ اقتدارواختیارکودردِ دل دے آمین وماعلی الاالبلاغ۔
حکیم قاری محمدعبدالرحیم
کرم اورعقل کاجھگڑا

Facebook Comments Box